کدی سمجھ ندانا ، گھر کتھے اِی سمجھ ندانا
آپ کمینہ ،تیری عقل کمینی،کون کہے تُوں دانا
ایہنیں راہیں جاندے ڈھٹڑے، میر ملک سلطاناں
آپےمارے تے آپے جیوالے،عزرایئل بہانا
کہے حسین فقیر سائیں دا،بن مصلحت اُٹھ جانا
اے نادان کبھی تو ہوش کے ناخن لے ، اپنے اصلی گھر قبر کا سوچ
تو دنیا کے پیچھے لگ کر لالچی ہو گیا ہے تیر ی عقل دو کو چار کرنے میں لگی ہو ئی ہے لہذا تو عقل مند نہیں
یہیں کام کرتے کرتے سارے بادشاہ دنیا سے چلے گئے مگر حرص ختم نہ ہوئی
خود ہی پیدا کرتا ہے خود ہی مارتا ہے ،عزرائیل تو اک سبب ہے
حسین رب کا درویش کہتا ہے کہ دنیا سے بلا شبہ چلے جانا ہے
Main Bhi Jhook Ranjhan Di Jana Naal Mere Koi Challe
میں بھی جھوک رَانجھن دِی جانا،نال میرے کوئی چلے
پیراں پوندی،منتاں کردی ،جانا تاں پیا اکلے
نیں بھی ڈونگھی،تُلا پُرانا ،شینہاں تاں پتن ملے
جے کوئی خبر متراں دی لیاوے،ہتھ دے دینی آں چھلے
راتیں درد ، دینہاں در ماندی ، گھاؤ متراں دے اَلھے
رانجھن یار طبیب سنیندا، میں تن درد اولے
کہے حسین فقیر نمانا،سائیں سنہوڑے گھلے
میں بھی محبوب کی نگری میں جا کر بسنا چاہتی ہوں،میرے ساتھ کوئی چلے
پاؤں پکڑے ،منتیں کیں کہ کوئی ساتھی تیار ہو جائے مگر اکیلے ہی جانا پڑا
ندی گہری ہے ، کشتی پرانی ہے،خوفناک درندے بھی راستے میں ملتے ہیں
اگر کوئی مجھے محبوب کی خبر سنائے تو ہاتھ کی انگوٹھی دوں گی
رات کو جدائی کا درد اور دن کو بے بسی و مجبوری میں وقت کٹتا ہے،زخم بھی ہرے ہیں
سنا ہے کہ محبوب طبیب ہوتا ہے اور صرف وہ ہی ان دردوں کا علاج کر سکتا ہے
حسین رب کا فقیر کہتا ہے کہ رب تو بلاوے بھیجتا رہتا ہے۔