Lahd Mein Wo Surat Dikhai Gai Hai
Meri Soi Qismat Jagai Gai Hai
لحد میں وہ صورت دکھائی گئی ہے
مری سوئی قسمت جگائی گئی ہے
نہیں تھا کسی کو جو منظر پہ لانا
تو کیوں بزم عالم سجائی گئی ہے
صبا سے نہ کی جائے کیوں کر محبت
بہت اُن کے کوچے میں آئی گئی ہے
وہاں تھی فدا مصر میں اک زلیخا
یہاں صدقے ساری خدائی گئی ہے
یہ کیا کم سند ہے مری مغفرت کی
ترے در سے میت اُٹھائی گئی ہے
گنہگار اُمت پہ رحمت کی دولت
سرحشر کھل کر لٹائی گئی ہے
شراب طہور اُن کے دست کرم سے
سرِ حوض کوثر پلائی گئی ہے
تہ خاک ہو شاد کیوں کر نہ اُمت
نبی کی زیارت کرائی گئی ہے
کسے تاب نظارہ جالی کے آگے
نظر احتراماً جھکائی گئی ہے
لحد سے نصیر اب چلو تم بھی اُٹھ کر
اُنہیں دیکھنے کو خدائی گئی ہے