Ae Dar Rukh e Tu Paida Anwaar e Paadshahi
Dar Fiqrat e Tu Pinhaan Sad Hikmat e ILaahi
اے در رُخ تو پیدا انوارِ پادشاہی
در فکرتِ تو پنہاں صد حکمتِ اِلہٰی
اے محبوب تیرے چہرے پر بادشاہی کے انوار پیدا ہورہے ہیں
تیری فکر میں اللہ کی سینکڑوں حکمتیں چھپی ہوئی ہیں
کلکِ تو بارک اللہ در ملک و دین کشادہ
صد چشمہ آب حیواں از قطرہ سیاہی
تیری قلم کو اللہ برکت دے کہ اس سے ملک اور دین
میں سینکڑوں چشمے آب حیات کے جاری ہو گئے اک قطرہ سیاہی سے
بر اہرمن نتابد انوار اسم اعظم
ملک آنِ تست و خاتم فرما ہر آنچہ خواہی
شیطان پر اسم اعظم کے انوار نہیں چمکتے
ملک اور شاہی مہر تیری ملکیت ہیں تو جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے
در حشمت سلیمان ہر کس کہ شک نماید
بر عقل و دانش اُو خندند مر غ و ماہی
حضرت سلیماں کہ جاہ و جلال پر شک کرنے والے کی
عقل پر پرند ےاور مچھلیاں ہنستی ہیں
تیغے کہ آسمانش از فیض خود دہد آب
تنہا جہاں بگیرد و بے منت سپاہی
وہ تلوار جسے آسمان خود اپنے پانی سے فیض دیتا ہے
وہ تنہاہی جہاں کو فتح کر لیتی ہے بغیر کسی سپاہی کے
گر پرتوے ز تیغت بر کان و معدن افتد
یاقوت سرخ رو را بخشند رنگ کاہی
اگر تیری تلوار کا سایہ کان و معدن پر پڑ جائے
تو وہ سرخ یا قوت کو زردرنگ بخش دے
دانم دلت بخشند بر اشک شب نشیناں
گر حال ما بپرسی از باد صبحگاہی
جانتا ہوں کہ تیر ا دل شب بیداروں کے اشکوں پر بخشش کرتا ہے
اگر تو صبح کی ہوا سے ہمارا حال چال پوچھے
ساقی بیار آبے از چشمہ خرابات
تا خرقہ ہا بشوئیم از عجب خانقاہی
باز ارچہ گاہ گاہے بر سر نہد کلاہے
مرغان قاف دانند آیئن پادشاہی
باز کبھی کبھی اپنے سر پر بادشاہی کا تاج رکھتا ہے
لیکن کوہ قاف کے پرندے زیادہ بہتر بادشاہی کے رموز جانتے ہیں
در دود مان آدم تا دضع سلطنت ہست
مثل تو کس ندیدہ ااست ایں علم را کماہی
آدم کے خانوادے میں جب سے سلطنت وضع ہوئی ہے
تیری طرح کسی نے بھی علم کما حقہ نہیں سمجھا
کلکِ تو خوش نوسید در شان یار و اغیار
تعویز جانفزائے و افسون عمر کاہی
تیرا قلم اپنوں اور غیروں کے بارے میں اچھا لکھتا ہے
گویا جان بڑھانے کا تعویز اور عمر گھٹانے کا منتر ہے
عمریست پادشاہا کز مے تہیست جامم
اینک ز بندہ دعویٰ و زمحتسب گواہی
عمر گزر گئی ہے اے بادشاہ کہ میرا جام خالی ہے
میرے اس دعویٰ کا کوتوال بھی گواہ ہے
اے عنصر تو مخلوق از کمیائے عزت
وائے دولت تو ایمن از صد متِ تباہی
اے ممدوح تیر ا وجود عزت کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے
تیر ی دولت تباہی سے محفوظ ہے
جائیکہ برقِ عصیاں بر آدم صفی زد
ما را چگونہ زیبد دعوائے بے گناہی
جب آدم صفی اللہ بھی لغزشوں کی بجلی کی زد میں آگئے
تو ہما را بے گناہی کا دعویٰ زیب نہیں دیتا
یا ملجا ء البرایا یا واھب العطایا
عطفا علی مقل حلت بہ الدواہی
اے مخلوق کی پناہ گاہ اور بخشنے والے
اس درویش پر بھی مہربانی فرما جو زمانے کے حادثات میں پس چکا ہے
جور از فلک نیاید تا تو ملک صفاتی
ظلم از جہاں بروں شد تا تو جہاں پناہی
آسمان ظلم نہیں کر سکتا جب تک تو فرشتہ صفت موجود ہے
ظلم جہاں سے باہر چلا گیا ہے جب سے تو جہاں پناہ ہوا ہے
حافظ چو دوست از تو گہ گاہ می برد نام
رنجش ز بخت منما باز آبعذر خواہی
اے حافظ جب تک دوست کبھی کبھی تیرا نام لیتا ہے
تو اپنے بخت سے خفا نہ ہو اور بار بار عذر خواہی کر
Deewan E Hafiz Shirazi
دیوان حافظ شیرازی