Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom
Ba Tu me Goium Payam Pir e Room
علامہ اقبال نے خوبصورت اشعار کی صورت میں حضرت مولانا روم کا مشہور واقعہ قلمبند کیا ہے
جس کے بعد آپ نے درس و تدریس کو چھوڑ کر حضرت شمس تبریزی کی صحبت اختیار کر لی
اے کہ باشی در پے کسب علوم
با تو می گویم پیام پیر روم
اےکہ تو علم حاصل کرنے میں مصروف ہے
کیا تو نے پیر روم کا پیغام بھی سنا ہے
“علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود”
مولانا روم کہتے ہیں کہ
علم کو اگر بدن پر لگایا جائے تو یہ سانپ بن جاتا ہے
لیکن علم کو اگر دل سے جوڑا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے
آگہی از قصہ اخوند روم
آں کہ داد اندر حلب درس علوم
تو مولاناروم کے قصے سے تو واقف ہے
وہ جو روم کہ شہر حلب مین علوم کا درس دیا کرتے تھے
پائے در زنجیر توجیہات عقل
کشتیش طوفانی طلمات عقل
اُن کے پاؤں عقل کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے
اُن کی کشتی عقل کی تاریکیوں اور طوفانوں میں گھری ہوئی تھی
موسی ے بیگانہ سینائے عشق
بے خبر از عشق او از سودائے عشق
وہ ایسے موسی تھے جو عشق کے طور سے نا واقف تھا
عشق اور عشق کے طور اطوار سے بے خبر تھے
از تشکک گفت و از اشراق گفت
وز حکم صد گوہر تابندہ سفت
وہ تشکک اور اشراق جیسے فلسفہ کے موضوعات پر گفتگو فرماتے
علوم کے موتی پروتے اور اس کے حصول پر زور دیتے تھے
عقدہائے قول مشائیں کشود
نور فکرش ہر خفی را وا نمود
اُنہوں نے بہت سے پیچیدہ مسائل کی گھتیاں سلجھائیں
اپنے نور فکر سے علم کا حصول ہر خاص و عام پر آسان کر دیا
گرد و پیشش بود انبار کتب
بر لب او شرح اسرار کتب
اُن کے گرد ہر وقت کتابوں کا ڈھیر ہوتا
ان کے ہونٹوں پر ہر وقت کتابوں کی تشریحات ہوتیں تھیں
پیر تبریزی ز ارشاد کمال
جست راہ مکتب مُلا جلال
حضرت شمس تبریزی اپنے مرشد کے حکم پر
مولاناجلال الدین رومی کے مدرسے پر آئے
گفت “ایں غوغا و قیل و قال چیست
ایں قیاس و وہم و استدلال چیست؟”
کہا کہ یہ شورو شرابہ اور غل غپاڑہ کیا ہے؟
یہ وہم و قیاس ،شک شبہ ،سمجھنا کیا ہے؟
مولوی فرمود “ناداں لب بہ بند
بر ملاقات خرد منداں مخند
مولانا روم نے کہا کہ مولوی چپ ہو جا
تو عقل مندوں کی باتوں کا مذاق نہ اُڑا
پائے خویش از مکتبم بیروں گذار
قیل و قال است ایں ترا باوے چہ کار؟
تو اُلٹے پاؤں میرے مدرسے سے نکل جا
میر ے قول و فعل سے تیرا کوئی لینا دینا نہیں
قال ما از فہم تو بالا تر است
شیشہ ادراک را روشن گر است”
میری باتیں تیری عقل سے اونچی ہیں
یہ عقل کے شیشے کو روشن کرتیں ہیں
سوز شمس از گفتہ ملا فزود
آتشے از جان تبریزی کشود
شمس تبریزی کے سوز کی گرمی مولانا کی باتوں سے بڑھ گئی
ان کی جان میں چھپی آگ ظاہر ہو گئ
بر زمیں برق نگاہ او فتاد
خاک از سوز دم او شعلہ زاد
اُنہوں نے جلال سے بھری آنکھ زمیں پہ ڈالی
ان کے پھونک سے مٹی شعلہ بن گئی
آتش دل خرمن ادراک سوخت
دفتر آں فلسفی را پاک سوخت
دل کی آگ نے عقل و فہم و ادراک کا کھلیان جلا دیا
اس فلسفی کا دفتر جل کر راکھ ہو گیا
مولوی بیگانہ از اعجاز عشق
ناشناس نغمہائے ساز عشق
مولانا روم جو کہ اُس وقت تک عشق کی کرامتوں سے نا واقف تھے
اور عشق کے نغموں اور رازوں سے بھی بے خبر تھے
گفت: “ایں آتش چساں افروختی
دفتر ارباب حکمت سوختی”
بولے کہ تو نے یہ آگ کیسے جلا لی
تو نے ارباب علم و حکمت کا نایاب خزانہ جلا ڈالہ
گفت شیخ اے مسلم زنار دار
ذوق و حال است ایں ترا باوے چہ کار
شمس تبریز بولے کہ اے بظاہر مسلم مگر عملا انکاری
یہ ذوق و شوق اور عشق کی گرمی کہ باعث ہے لیکن تیرا اس سے کوئی کام نہیں
حال ما از فکر تو بالا تر است
شعلہ ما کیمائے احمر است
میرا حال تیری سمجھ سے بالا تر ہے
میرا شعلہ پارس پتھر سونا ہے
—————————————————————
Molvi Hargiz Na Shud Maula E Rum
Ta Ghulam e Shams Tabraizi Na Shud
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
مولانا روم اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں فقط مولوی تھا
مگر جب حضرت شمس تبریزی کا غلام ہوا تو روم کا سردار ہو گیا۔
—————————————————————
اس واقعہ کے بارے میں حکائت ہے کہ حضرت شمس تبریزی نے حضرت مولانا روم کی کتب پانی کے تالاب میں ڈال دی تھیں۔پھر جب مولانا روم برہم ہوئے تو آپ نے تالاب سے خشک کتابیں نکال دیں۔یہ کرامت دیکھ کہ مولانا روم آپ کے گرویدہ و مرید ہو گئے