نی سیّو ! اسیں نیناں دے آکھے لگے
جینہاں پاک نگاہاں ہوئیاں ، کہیں نہیں جاندے ٹھگے
کالے پٹ نہ چڑھے سفیدی ، کاگ نہ تھیندے بگے
شاہ حسین شہادت پائیں ، مرن جو متراں اگے
دوستو! ہم نگاہوں کا کہنا مانتے ہیں
جن کی طرف پاک نگاہیں اُٹھ جاتی ہیں وہ کہیں بھی دھوکہ نہیں کھاتے
جیسے سیاہ ریشم پر سفید رنگ نہیں چڑھتا اور جیسا کہ کوّے سفید نہیں ہوتے
شاہ حسین وہ شہید ہوتے ہیں جو محبوب کی خاطر قربان ہو جاتے ہیں
Awal Hamd Khuda Da Vird Kijey Ishq Kita So Jag Da Mol Mian
اول حمد خدا دا ورد کیجے، عشق کیتا سو جگ دا مول میاں
پہلوں آپ ہی رب نے عشق کیتا ، معشوق ہے نبی رسول میاں
عشق پیر فقیر دا مرتبہ اے، مرد عشق دا بھلا رنجول میاں
کھلے تنہاندے باغ قلوب اندر، جنہاں کیتا اے عشق قبول میاں
سب سے پہلے اللہ پاک کی تعریف جس نے عشق کی ابتدا کی اور عشق کو جہاں کا دام مقرر کیا
سب سے پہلے عاشق خود بنا اور رسول کریمﷺ کو اپنا محبوب بنایا
عشق تو پیروں فقیروں کا مرتبہ ہے،عاشق حقیقی بڑا خوش قسمت ہوتا ہے
ان کے دلوں میں باغ کھلتے ہیں جو عشق کو قبول کر لیتے ہیں
سوہنے ہم تو اس نالی(دنیا) سے پیاسے ہی نکل گئے
بھلا ہو مکھیوں نے گڑ(دنیا) کھایا مگر ہم نےمکھیوں کی بھنبھناہٹ سے چھٹکارا حاصل کر لیا
پرانے برتن کو کتوں نے چاٹا مگر ہم نے پانی سے کچھ نہیں دھویا
حسین رب کا فقیر کہتا ہے کہ جتنی مشکلات ہمارے راستے میں آئیں ہم سب کو چھلانگ لگا کر پار کرآئے
Dil Dardaan Keeti Poori Ni Dil Dardaan Keeti Poori
دل درداں کیتی پوری نی،دل درداں کیتی پوری
لکھ کروڑ جنہاں دے جڑیا،سو بھی جُھوری جُھوری
بَھٹھ پئی تیری چِٹی چادر ،، چَنگی فقیراں دی بُھوری
سَادھ سنگت دے اوہلے رندے ،بُدھ تینہاں دی سُوری
کہے حسین فقیر سائیں دا ،خلقت گئی اَدھوری
دل کی دردوں نے پورا کر دیا،دل کی دردوں نے مکمل کر دیا
جن کے پاس لاکھ ، کڑور جمع ہوتا ہے وہ پھر بھی ادھورے اور نا مکمل رہتے ہیں
تیر ی سفید چادر میلی ہو گئی مگرہماری بھوری چادر بے داغ ہے
جن کو نیک صحبت میسر ہو جائے ان کی عقل سلیم ہو جاتی ہے
حسین رب کا فقیر کہتا ہے کہ خلقت دنیا سے ادھوری جاتی ہے
ربّا میرے حال دا محرم تُوں
اندر توں ہیں باہر تُوں ہیں ، روم روم وچ تُوں
تُوں ہیں تانا ، تُوں ہیں بانا، سبھ کجھ میرا تُوں
کہے حسین فقیر نمانا، میں ناہیں سبھ تُوں
اے میرے رب صرف تو ہی میرے حال سے واقف ہے
میرے اندر باہر اور رگ رگ میں تو سمایا ہوا ہے
تو ہی میرا تانا بانااور سب کچھ ہے۔ یعنی دھاگوں (رگوں)کا جال جو میرے اندرطول اور عرض پھیلا ہوا ہے
عاجز فقیر حسین کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں سب کچھ تری ذات ہے