Tag: قلندر

  • Asan So Bad Mast Qalandar houn

    Asan So Bad Mast Qalandar houn
    Kadin Masjid Houn Kadi Mandir Houn

    اساں سو بد مست قلندر ہوں
    کڈیں مسجد ہوں کڈیں مندر ہوں

    ہم وہ سرقسمت قلندر ہیں جو
    کبھی مسجد میں ہیں کبھی مندر میں ہیں

    کڈیں چور بنوں کڈیں جار بنوں
    کڈیں توبہ استغفار بنوں
    کڈیں زہد عبادت کار بنوں
    کڈیں فسق فجوریں اندر ہوں

    کبھی چور بنیں بدکار بنیں
    کبھی توبہ اسغفار کہیں
    کبھی زاہد عابد نیک بنیں
    کبھی فسق فجور کے اندر ہیں

    کِتھاں درد کِتھاں درمان بنوں
    کتھاں مصر کتھاں کنعان بنوں
    کتھاں کیچ بھنبھور دا شان بنوں
    کتھاں واسی شہر جلندر ہوں

    کہیں درد کہیں درمان بنیں
    کبھی مصر، کبھی کنعان بنیں
    کہیں کیچ،بھنبھور کا شان بنیں
    کبھی اندر شہر جا لندھر ہیں

    کتھاں صومعہ دیر کنشت کِتھاں
    کتھے دوزخ باغ بہشت کِتھاں
    کتھے عاصی نیک سرشت کِتھاں
    کِتھے گمرہ ہوں کِتھے رہبر ہوں

    کبھی خانقاہ کبھی بت خانہ
    کبھی گرجا میں کبھی مسجد میں
    کبھی دوزخ میں کبھی جنت میں
    کبھی عاصی ہیں کبھی زاہد ہیں
    کہیں گمراہ ہیں کہیں راہبر ہیں

    ہیوں او قلاش تے رند اساں
    پئی نودی ہے ہند سندھ اساں
    ہیوں بے شک عارف چند اساں
    کل راز رموز دے دفتر ہوں

    ہم تو وہ بے مایہ مست الست ہیں کہ
    کائنات ہمارے سامنے سرنگوں ہے
    ہم بلا شک و شبہ عارف کامل ہیں
    اور اسرار و رموز الہی کے ماہر ہیں

    ہن ناز نواز دے ٹول کڈیں
    ہے مونجھ منجھاری کول کڈیں
    رلے ڈھول کڈیں گیا رول کڈیں
    کڈیں بر در ہوں کڈیں در بر ہوں

    کبھی نازنیں کبھی ناز آفریں
    کبھی پرحزن وملال کبھی اندوہگیں
    کبھی قریب دوست کبھی بعید دوست
    کبھی در پر ہیں کبھی اندر ہیں

    ول واتوں سمجھ فرید الا
    کر محض نہ شعر جدید ولا
    ہے چالوں حال پدید بھلا
    تونے کیجو سارے ابتر ہوں

    فرید منہ سنبھال کر بات کر
    ایسے اشعار پھر نہ کہنا
    ہماری کیفیت تو ہمارے انداز سے ظاہر ہے
    کیا ہوا اگر بدحال ہیں

    Khawaja Ghulam Farid
    خواجہ غلام فرید

    ترجمہ تحقیق تصحیح
    خواجہ طاہر محمود کوریجہ

  • Haiderium Qalandram Mastam Banda e Murtaza Ali Hastam

    Haiderium Qalandram Mastam
    Banda e Murtaza Ali Hastam

    حیدریم قلندرم مستم
    بندہ مرتضٰی علی ہستم

    جام مہر علی ز در دستم
    بعد از جام خوردم مستم
    کمر اندر قلندری بستم
    از دل پاک حیدری ہستم

    میں نے حضرت علی کی محبت کا جام پیا
    پینے کے بعد میں مست ہو گیا
    میں نے قلندری کے میدان میں قدم رکھا
    دل و جان سے میں حیدری ہو گیا

    حیدریم قلندرم مستم
    بندہ مرتضٰی علی ہستم

    از مئے عشق شاہ سرمستم
    بندہ مرتضٰی علی ہستم
    من بغیر از علی نہ دانستم
    علی ولی اللہ از ازل گفتم

    حیدریم قلندرم مستم
    بندہ مرتضٰی علی ہستم

    غیر حیدری ہمی اگر دانی
    کافری و یہودی و نصرانی
    بہشت ایمان علی فمیدانی
    بپدیری کہ ایں مسلمانی

    حیدریم قلندرم مستم
    بندہ مرتضٰی علی ہستم

    سرگروہ تمام رندانم
    رہبر سالکم عارفانم
    ہادی عاشقانم مستانم
    کہ سگ کوئے شیر یزدانم

    حیدریم قلندرم مستم
    بندہ مرتضٰی علی ہستم

    نہ رسد کئے حشمت و جاہش
    منم عثمان مروندی بندہ درگاہش
    برزماں ہست حال ما  آگاہش
    بوصالش بود سدا خواہش

    حضرت علی کے مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچا
    میں عثمان مروندی آپ کی بارگاہ کا غلام ہوں
    آپ ہر زمانے میں میرے حال سے واقف رہے ہیں
    آپ سے ملاقات کی ہمیشہ خواہش رہی ہے

    حیدریم قلندرم مستم
    بندہ مرتضٰی علی ہستم

    لعل شہباز قلندر
    Lal Shahbaz Qalandar

  • Qalandaran Ke Ba Taskheer e Aab o Gill Koshand

    Qalandaran Ke Ba Taskheer e Aab o Gill Koshand
    Ze Shah Baj Sitanand o Khirqa Me Poshand

    قلندراں کہ بہ تسخیر آب و گل کو شند
    ز شاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند

    قلندر ہوا مٹی آگ پانی سب پر حکم چلاتے ہیں
    خود گدڑی پہنے ہوتے ہیں اور بادشاہوں سے خراج وصول کرتے ہیں

    بجلوت اندو کمندے بہ مہرو ماہ پیچند
    بخلوت اندو زمان و مکاں در آغوشند

    جلوت میں سورج و چاند پر اپنے تصرف کی کمند ڈالتےہیں
    خلوت میں اپنی آغوش میں زمان و مکاں کو لئے ہوتے ہیں

    بروز بزم سراپا چو پرنیان و حریر
    بروز رزم خود آگاہ و تن فراموشند

    محفل میں ان کی زبان سے ریشم اور پھول جھڑتی ہے
    جنگ میں وہ اپنے اپ سے آگاہ ہو کر جسم فراموش کرتے ہیں

    نظام تازہ بچرخ وو رنگ می بخشند
    ستارہ ہائے کہن را جنازہ بر دوشند

    دو رنگے آسمان کو نیا نظام بخشتے ہیں
    پرانے ستاروں کی گردش کا خاتمہ ان کی ابرو کی جنبش سے ہوتا ہے اور اپنے کندھوں پر ان کا جنازہ اٹھاتے ہیں

    زمانہ از رخ فردا کشود بند نقاب
    معاشراں ہم سر مست بادۂ دوشند

    زمانے نے تو آنے والے وقت کی نقاب کھول دی ہے
    مگر(مسلم)معاشرہ ابھی تک پچھلے وقت کو یاد کر کے خوش ہو رہا ہے

    بلب رسید مرا   آں سخن کہ نتواں گفت
    بحیرتم کہ فقیہان شہر خاموشند

    میرے لبوں پر وہ بات آ گئی ہے جو بیان نہیں ہو سکتی
    حیرت ہے کہ شہر کی فقیہ خاموش ہیں

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

azkalam.com © 2019 | Privacy Policy | Cookies | DMCA Policy