Tag: علامہ اقبال کی شاعری

  • Diyar e Ishq Mein Apna Maqam Paida Kar

    جاوید کے نام
    Javed Ke Naam

    لندن میں جاوید کے ہاتھ کا لکھا پہلا خط آنے پر
    On receiving his first letter in London

    Apparently this poem is written for Javed (Son of Allma Iqbal), however it is equally towards all the teenagers and youngsters of Muslim Nation across the world.

    Diyar e Ishq Mein Apna Maqam Paida Kar
    Naya Zamana, Nayey Subha-o-Shaam Paida Kar

    دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
    نیا زمانہ نِے صبح و شام پیدا کر

    In the Region of Love , build your Entity
    Create New Cosmos , New Dawns and Evenings

    خدا اگر دل فطرت شناس دے تچھ کو
    سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

    Khuda Agar Dil-e-Fitrat Shanas Dai Tuj Ko
    Sakoot-e-Lala-o-Gul Se Kalaam Paida Kar

    May Allah grant you a Heart that could recognize the Nature
    Generate melodies from the silence of Rose n Tulip

    ﺍﭨﮭﺎ ﻧﮧ ﺷﯿﺸﮧ ﮔﺮﺍﻥِ ﻓﺮﻧﮓ ﮐﮯ ﺍﺣﺴﺎﮞ
    ﺳﻔﺎﻝِ ﮨﻨﺪ ﺳﮯ ﻣﯿﻨﺎ ﻭ ﺟﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ

    Utha Na Sheesha Garan-e-Farang Ke Ahsan
    Sifal-e-Hind Sey Meena-o-Jaam Paida Kar

    Don’t accept the favors from European people (Farang) and reject their tools (Glass)
    Create your own weapons from the pure mud of Islamic Culture

    ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺥِ ﺗﺎﮎ ﮨﻮﮞ, ﻣﯿﺮﯼ ﻏﺰﻝ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺛﻤﺮ
    ﻣﺮﮮ ﺛﻤﺮ ﺳﮯ ﻣﺌﮯ ﻻﻟﮧ ﻓﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ

    Main Shakh-e-Taak Hun, Meri Ghazal Hai Mera Samar
    Mere Samar Se Mai-e-Lala Faam Paida Kar

    I am like a brach of grapes, My song is my fresh fruit
    Produce fresh delicious wine from my fruits.

    ﻣِﺮﺍ ﻃﺮﯾﻖ ﺍﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﻘﯿﺮﯼ ﮨﮯ
    ﺧﻮﺩﯼ ﻧﮧ ﺑﯿﭻ , ﻏﺮﯾﺒﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ

    Mera Tareeq Ameeri Nahin, Faqeeri Hai
    Khudi Na Baich, Ghareebi Mein Naam Paida Kar

    Rich are not my inspirations rather Poors
    Don’t sell yourself, Make your NAME by leaving all the desires of the world

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Man Shab e Siddique Ra Deedum b’Khawab

    خلاصہ مطالبِ مثنوی
    در تفسیر سورہَ اخلاص

    قل ھواللہ احد
    کہہ دو وہ اللہ ایک ہے

    Man Shab e Siddque Ra Deedum b’Khawab
    Gul Z Khak e Raah e Oo Cheedam b’Khawab

    من شبے صدیق را دیدم بخواب
    گل زِ خاک راہِ اُو چیدم بخواب

    ایک رات میں نے خواب میں حضرت ابو بکر صدیق کو دیکھا
    آپ کے راستے کی خاک سے میں نے خواب میں پھول چنے

    آں امن الناس بر مولائے ما
    آں کلیم اوّل سینائے ما

    آپ سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہمارے مولا ہیں
    آپ ہمارے طور(نبی کریم ؐ ) کے پہلے کلیم ہیں

    ہمت اُو کشت ملت را چو ابر
    ثانی اسلام و غار و بدر و قبر

    آپ کی ہمت امت کی کھیتی کے لئے بادل کی مانند ہے
    آپ ثانی اسلام و غار وبدر و قبر ہیں

    گفتمش اے خاصہَ خاصانِ عشق
    عشقِ تو سرِ مطلعِ دیوانِ عشق

    میں نے آپ سے کہا کہ آپ عشق کے خاصوں سے بھی خاص ہیں
    آپ کا عشق دیوان عشق کا پہلا شعر ہے

    پختہ از دستت اساسِ کار ما
    چارہ ے فرما پے آزارِ ما

    آپ کے ہاتھوں سے ہمارے کاموں کی بنیاد مضبوط ہوئی
    آپ ہمارے دکھ درد کا علاج فرمائیں

    گفت تاکہ ہوس گردی اسیر
    آب و تاب از سورہ اخلاص گیر

    حضرت صدیق نے فرمایا کہ کب تک اُمت حرص و ہوس میں مبتلا رہے گی
    اس اُمت کو سورہ اخلاس سے چمک دمک حاصل کرنی چاہیے

    ایں کہ در صد سینہ پیچد یک نفس
    سرے از اسرارِ توحید است و بس

    یہ جو ہزاروں سینوں میں ایک ہی طرح سے سانس چل رہا ہے
    یہ توحید کے رازوں میں سے ایک راز ہے

    رنگ اُو برکن مثالِ او شوی
    در جہاں عکس جمال او شوی

    اس جہاں میں تو اس کے رنگ کو اختیار کر کے اس کی مانند ہو جا
    اس جہاں میں اُس کے جمال کا عکس بن جا

    آنکہ نامِ تو مسلماں کردہ است
    اذ دوئی سوے یکی آورہ است

    وہ ذات کہ جس نے تیرا نام مسلماں رکھا ہے
    وہ تجھے دوئی سے وحدت کی طرف لائی ہے

    خویشتن را ترک و افغان خواندہ ای
    وائے بر تو آنچہ بودی ماندہ ای

    تو خود کو ترک اور افغان کہلانا پسند کرتا ہے
    افسوس تجھ پر کہ تو جو تھا اب نہیں ہے

    وارہاں نامیدہ را از نامہا
    ساز با خم در گذر از جامہا

    تو اس قوم کو اتنے سارے ناموں سے نجات دلا
    تو صراحی سے موافقت کر اور پیالوں سے جان چھڑا

    اے کہ تو رسواے نام افتادہ عی
    از درخت خویش خام افتادہ ای

    اے کہ تو (قوم) اتنے سارے ناموں کی وجہ سے رسوا ہو گئی ہے
    اور اپنے درخت سے کچے پھل کی طرح گر گئی ہے

    با یکی ساز از دوئی بردار رخت
    وحدت خود را مگرداں لخت لخت

    تو توحید سے تعلق جوڑ اور دوئی کو رخصت کر دے
    اپنی وحدت کو اس طریقے پر ٹکڑے ٹکڑے نہ کر

    اے پرستار یکی گر تو توئی
    تا کجا باشی سبق خوانِ دوئی

    اے ایک کے پوچنے والے اگر تو تو ہے
    تو کب تک دوئی کا سبق پڑھتا رہے گا

    تو درِ خود را بخود پوشیدہ ای
    در دل آور آنچہ بر لب چیدہ ای

    تو نے اپنا دروازہ اپنے اوپر خود بند کر لیا ہے
    تو جو زبان سے کہتا ہے دل سے بھی ادا کر

    صد ملل از ملتے انگیختی
    برحصارِ خود شبخوں ریختی

    تو نے ایک ملت کی سو ملتیں بنا لیں ہیں
    اپنے قلعے پر خود ہی شب خوں مارا ہے

    یک شو و توحید را مشہود کن
    غائبش را از عمل موجود کن

    ایک ہو جا اور توحید کا اظہار کر دے
    اپنے عمل سے غائب کو موجود کر دے

    لذتِ ایماں فزاید در عمل
    مردہ آں ایماں کہ ناید در عمل

    ایمان کی لذت عمل کرنے سے بڑھتی ہے
    مردہ ہے ایمان جس میں عمل نہ ہو

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Jahan Az Ishq o Ishq Az Seena Tust

    Jahan Az Ishq o Ishq Az Seena Tust

    جہان از عشق و عشق از سینہ تست
    سرورش از مے دیرینہ تست
    جز ایں چیزے نمی دانم ز جبریل
    کہ او یک جوہر از آینہ تست

    یہ دنیا عشق کی بدولت ہے اور عشق آپؐ کے سینہ(دل) مبارک سے ہے
    عشق کا سرور آپؐ کی پرانی شراب (توحید و معرفت)کے طفیل ہے
    میں جبریل کے بارے میں فقط اتنا جانتا ہوں کہ وہ
    آپؐ کہ آئینہ کی ایک چمک ہے
    یعنی جبریل بھی حضورؐ کے نور کے طفیل معرض وجود میں آئے

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Na Az Saaqi Na Az Paimana Guftam Hadees Ishq Be Bakana Guftam

    Na Az Saaqi Na Az Paimana Guftam
    Hadees Ishq Be Bakana Guftam

    نہ از ساقی نہ از پیمانہ گفتم
    حدیث عشق بے باکانہ گفتم

    میں نے نہ تو ساقی اور نہ ہی پیمانے کی بات کی جیسے کے عام شعرا کرتے ہیں
    بلکہ عشق کی باتیں کھل کھلا کہ نڈر ہو کر کی ہیں

    شنیدم آنچہ از پاکانِ اُمت
    ترا با شوخی رندانہ گفتم

    جو کچھ کہ میں نے اس اُمت کے پاک لوگوں سے سنا
    تیرے لئے رندانہ شوخی لئے شاعری میں بیان کر دیا

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Best Poetry of Allama Iqbal

    Best Poetry of Allama Iqbal

    علامہ اقبال ایک سچے عاشق رسول نہائت خوبی سے حضور کی شان بیان کر گئے ہیں

    در دل مسلم مقام مصطفیٰ است
    آبروئے ما زِ نام مصطفیٰ است

    مسلمانوں کے دلوں میں حضور کا مقام ہے
    ہم مسلمانوں کی عزت و آبرو حضورؐ کے نام کی بدولت ہے

    طور موجے از غبار خانہ اش
    کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش

    کوہ طور تو آپ کے مبارک گھر کی گرد کی لہر ہے
    کعبہ کے لئے آپ کا کاشانہ مبارک بیت الحرام کی مانند ہے

    کمتر از آنے ز اوقاتش، ابد
    کاسب افزائش از ذاتش ابد

    ابد جس کی انتہا نہیں آپؐ کے مبارک اوقات کے ایک پل سے بھی کم ہے
    ابد کی افزائش بھی آپ کی ذات گرامی کے طفیل ہے

    Asrar o Ramooz
    اسرار و رموز
    ——————————————————————
    مسلماں آں فقیر کج کلاہے
    رمید از سینہ او سوز آہے
    دلش نالد چرا نالد؟ نداند
    نگاہے یا رسول اللہ نگاہے

    مسلماں جو کہ اپنی فقیری میں بے پرواہ تھا
    اس کا سینہ سوز و گداز کی آہ سے خالی ہو گیا ہے
    اس کا دل روتا ہے مگر رونے کا سبب نہیں معلوم
    ایسے حال میں یارسول اللہ آپ ہی کچھ نظر کرم کریں

    Armaghan Hijaz
    ارمغان حجاز
    ——————————————————————-
    شبے پیش خدا بگریستم زار
    مسلماناں چرا زارند و خوارند
    ندا آمد نمی دانی کہ ایں قوم
    دلے دارند و محبوبے ندارند

    ایک رات خدا کے حضور بہت رویا
    کہ مسلمان ذلیل و خوار کیوں ہیں
    صدا آئی کہ تو نہیں جانتا کہ یہ قوم
    دل تو رکھتی ہے محبوب(حضورؐ) نہیں رکھتی

    Armaghan Hijaz
    ارمغان حجاز

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom

    Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom
    Ba Tu me Goium Payam Pir e Room

    علامہ اقبال نے خوبصورت اشعار کی صورت میں حضرت مولانا روم کا مشہور واقعہ قلمبند کیا ہے
    جس کے بعد آپ نے درس و تدریس کو چھوڑ کر حضرت شمس تبریزی کی صحبت اختیار کر لی

    اے کہ باشی در پے کسب علوم
    با تو می گویم پیام پیر روم

    اےکہ تو علم حاصل کرنے میں مصروف ہے
    کیا تو نے پیر روم کا پیغام بھی سنا ہے

    “علم را بر تن زنی مارے بود
    علم را بر دل زنی یارے بود”

    مولانا روم کہتے ہیں کہ
    علم کو اگر بدن پر لگایا جائے تو یہ سانپ بن جاتا ہے
    لیکن علم کو اگر دل سے جوڑا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے

    آگہی از قصہ اخوند روم
    آں کہ داد اندر حلب درس علوم

    تو مولاناروم  کے قصے سے تو واقف ہے
    وہ جو روم کہ شہر حلب مین علوم کا درس دیا کرتے تھے

    پائے در زنجیر توجیہات عقل
    کشتیش طوفانی طلمات عقل

    اُن کے پاؤں عقل کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے
    اُن کی کشتی عقل کی تاریکیوں اور طوفانوں میں گھری ہوئی تھی

    موسی ے بیگانہ سینائے عشق
    بے خبر از عشق او از سودائے عشق

    وہ ایسے موسی تھے جو عشق کے طور سے نا واقف تھا
    عشق اور عشق کے طور اطوار سے بے خبر تھے

    از تشکک گفت و از اشراق گفت
    وز حکم صد گوہر تابندہ سفت

    وہ تشکک اور اشراق جیسے  فلسفہ کے موضوعات پر گفتگو فرماتے
    علوم کے موتی پروتے اور اس کے حصول پر زور دیتے تھے

    عقدہائے قول مشائیں کشود
    نور فکرش ہر خفی را وا نمود

    اُنہوں نے بہت سے پیچیدہ مسائل کی گھتیاں سلجھائیں
    اپنے نور فکر سے علم کا حصول ہر خاص و عام پر آسان کر دیا

    گرد و پیشش بود انبار کتب
    بر لب او شرح اسرار کتب

    اُن کے گرد ہر وقت کتابوں کا ڈھیر ہوتا
    ان کے ہونٹوں پر ہر وقت کتابوں کی تشریحات ہوتیں تھیں

    پیر تبریزی ز ارشاد کمال
    جست راہ مکتب مُلا جلال

    حضرت شمس تبریزی اپنے مرشد کے حکم پر
    مولاناجلال الدین رومی کے مدرسے پر آئے

    گفت “ایں غوغا و قیل و قال چیست
    ایں قیاس و وہم و استدلال چیست؟”

    کہا کہ یہ شورو شرابہ اور غل غپاڑہ کیا ہے؟
    یہ وہم و قیاس ،شک شبہ ،سمجھنا کیا ہے؟

    مولوی فرمود “ناداں لب بہ بند
    بر ملاقات خرد منداں مخند

    مولانا روم نے کہا کہ مولوی چپ ہو جا
    تو عقل مندوں کی باتوں کا مذاق نہ اُڑا

    پائے خویش از مکتبم بیروں گذار
    قیل و قال است ایں ترا باوے چہ کار؟

    تو اُلٹے پاؤں میرے مدرسے سے نکل جا
    میر ے قول و فعل سے تیرا کوئی لینا دینا نہیں

    قال ما از فہم تو بالا تر است
    شیشہ ادراک را روشن گر است”

    میری باتیں تیری عقل سے اونچی ہیں
    یہ عقل کے شیشے کو روشن کرتیں ہیں

    سوز شمس از گفتہ ملا فزود
    آتشے از جان تبریزی کشود

    شمس تبریزی کے سوز کی گرمی مولانا کی باتوں سے بڑھ گئی
    ان کی جان میں چھپی آگ ظاہر ہو گئ

    بر زمیں برق نگاہ او فتاد
    خاک از سوز دم او شعلہ زاد

    اُنہوں نے جلال سے بھری آنکھ زمیں پہ ڈالی
    ان کے پھونک سے مٹی شعلہ بن گئی

    آتش دل خرمن ادراک سوخت
    دفتر آں فلسفی را پاک سوخت

    دل کی آگ نے عقل و فہم و ادراک کا کھلیان جلا دیا
    اس فلسفی کا دفتر جل کر راکھ ہو گیا

    مولوی بیگانہ از اعجاز عشق
    ناشناس نغمہائے ساز عشق

    مولانا روم جو کہ اُس وقت تک عشق کی کرامتوں سے نا واقف تھے
    اور عشق کے نغموں اور رازوں سے بھی بے خبر تھے

    گفت: “ایں آتش چساں افروختی
    دفتر ارباب حکمت سوختی”

    بولے کہ تو نے یہ آگ کیسے جلا لی
    تو نے ارباب علم و حکمت کا نایاب خزانہ جلا ڈالہ

    گفت شیخ اے مسلم زنار دار
    ذوق و حال است ایں ترا باوے چہ کار

    شمس تبریز بولے کہ اے بظاہر مسلم مگر عملا انکاری
    یہ ذوق و شوق اور عشق کی گرمی کہ باعث ہے لیکن تیرا اس سے کوئی کام نہیں

    حال ما از فکر تو بالا تر است
    شعلہ ما کیمائے احمر است

    میرا حال تیری سمجھ سے بالا تر ہے
    میرا شعلہ پارس پتھر سونا ہے

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

    —————————————————————
    Molvi Hargiz Na Shud Maula E Rum
    Ta Ghulam e Shams Tabraizi Na Shud

    مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
    تا غلام شمس تبریزی نہ شد

    مولانا روم اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں فقط مولوی تھا
    مگر جب حضرت شمس تبریزی کا غلام ہوا تو روم کا سردار ہو گیا۔

    —————————————————————

    اس واقعہ کے بارے میں حکائت ہے کہ حضرت شمس تبریزی نے حضرت مولانا روم کی کتب پانی کے تالاب میں ڈال دی تھیں۔پھر جب مولانا روم برہم ہوئے تو آپ نے تالاب سے خشک کتابیں نکال دیں۔یہ کرامت دیکھ کہ مولانا روم آپ کے گرویدہ و مرید ہو گئے

  • Utho Meri Duniya Ke Ghareebon Ko Jaga Do

    Utho Meri Duniya Ke Ghareebon Ko Jaga Do

    اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
    کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو

    Get up wake the poor people of my world
    Shake the walls and windows of Rich people palaces

    گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
    کُنجکشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

    Warm the blood of slaves with faith of hope
    Prepare fearful sparrow to fight with the Falcon

    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
    اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

    A field from where the farmers are not getting sustenance
    Burn every grain of wheat from that field

    سلطانیء جمہور کا آتا ہے زمانہ
    جو نقش کہن تم کو نظر آے مٹا دو

    Approching is the time for poors to rule
    Erase every impression of the past rulers

    کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
    پیران کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو

    Why are there veils between the Creator and Creation
    Push away the saints from the Church who misguide

    حق را بسجودے،صنماں بطوافے
    بہتر ہے چراغ حرم و دَیر بجھا دو

    Prostration is being held for God , Idols are being encircled
    It is better to unlit the lamp of Masjid and Temple

    میں ناخوش و بیزار ہُوں مَرمَر کی سِلوں سے
    میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو

    I am unpleased with the Marble tiles
    Build for me a Mosque from the mud

    تہزیب نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے
    آداب جنوں شاعرِ مشرِق کو سکھا دو

    New civilization is build up from glass work
    Teach ethics of devotion to the poet of east

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Man Banda e Azadam Ishq Ast Imam Man

    Man Banda e Azadam Ishq Ast Imam Man
    Ishq Ast Imam Man Aqal Ast Ghulam Man

    من بندہ آزادم عشق است امام من
    عشق است امام من عقل است غلام من

    میں آزاد بندہ ہوں،عشق میرا امام ہے
    عشق  میرا امام ہے اور عقل میری غلام ہے

    ہنگامۂ ایں محفل از گردش جام من
    ایں کوکب شام من ایں ماہ تما م من

    اس محفل کا شور اصل میں میرے جام کی گردش کے باعث ہے
    یہ چاند اور ستارہ میری شام کے لئے ہیں

    جاں در عدم آسودہ بے ذوق تمنا بود
    مستانہ نواہازد در حلقہ دام من

    روح عدم میں آرزو و تمنا کے ذوق سے خالی تھی
    جب وہ میرے قالب میں آئی تو مستانے ساز و نغمے چھڑے

    اے عالم رنگ و بو ایں صحبت ما تا چند
    مرگ است دوام تو عشق است دوام من

    اے جہان یہ تیر ی میری صحبت کب تک باقی ہے
    تجھے تو  موت آجانی ہے اور مجھے عشق کی بدولت بقاو دوام حاصل ہے

    پیدا بضمیرم او پنہاں بضمیرم او
    ایں است مقام او دریاب مقام من

    وہ میرے باطن میں پوشیدہ بھی ہے ظاہر بھی ہے
    یہ تو اُس کا مقام ہے ، اب میرا مقام دریافت کر

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Beeni Jahan Ra Khud Ra Na Beeni

    Beeni Jahan Ra Khud Ra Na Beeni
    Ta Chand Nadaan Ghafil Nasheeni

    بینی جہاں را خود را نہ بینی
    تا چند ناداں غافل نشینی

    تو جہان کو دیکھتا ہے ، اپنے آپ کو نہیں دیکھتا
    اے نا سمجھ تو کب تک غفلت میں بیٹھا رہے گا

    نور قدیمی شب را بر افروز
    دست کلیمی در آستینی

    تو ایک قدیم نور ہے، رات کو روشن کر
    تیری آستین میں تو کلیم کا ہاتھ ہے

    بیروں قدم نہ از دورِ آفاق
    تو پیش آزینی تو بیش ازینی

    تو اس کائنات سے باہر قدم رکھ
    تو اس سے آگے کی چیز ہے تری قدروقیمت بھی اس سے زیادہ ہے

    از مرگ ترسی اے زندہ جاوید؟
    مرگ است صیدے تو در کمینی

    کیا تو موت سے ڈرتا ہےاے ہمیشہ رہنے والے
    موت تو خود تیری کمین گاہ کا شکار ہے

    جانے کہ بخشند دیگر نگیرند
    آدم بمیرد از بے یقینی

    زندگی (جان)تو خدا کا عطیہ ہے جو واپس نہیں لیا جاتا
    آدمی تو اپنی بے یقینی کی وجہ سے مر جاتا ہے

    صورت گری را از من بیا موز
    شاید کہ خود را باز آفرینی

    مجھ سے مصوری کا فن سیکھ
    عجب نہیں کہ تو اپنے آپ کو تعمیر کر لے

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Een Hum Jahaney Aan Hum Jahaney

    Een Hum Jahaney Aan Hum Jahaney
    Een Baekaraney Aan Baekaraney

    ایں ہم جہانے آں ہم جہانے
    ایں بیکرانے آں بیکرانے

    یہ دنیا بھی ایک جہان ہے،آخرت بھی ایک جہان ہے
    یہ بھی بیکراں ہے ، وہ بھی لا محدود ہے

    ہر دوخیالے ہر دو گمانے
    از شعلۂ من موج دخانے

    دونوں ہی خیال ہیں ، دونوں ہی قیاس ہیں
    میرے شعلے کے دھویئں کی لہریں ہیں

    ایں یک دو آنے آں یک دو آنے
    من جاودانے ، من جاودانے

    یہ بھی ایک دو پل ہے ، وہ بھی ایک دو پل (عارضی)ہے
    میں جاوداں ہوں ، مجھے بقا حاصل ہے

    ایں کم عیارے آں کم عیارے
    من پاک جانے نقد روانے

    یہ بھی کم قیمت ہے ، وہ بھی بے قدر ہے
    میں پاک جان کھری نقدی سکہ ہوں

    ایں جا مقامے آں جا مقامے
    ایں جا زمانے آں جا زمانے

    ادھر بھی کچھ وقت کے لئے مقیم ہوں اُدھر بھی وقتی پڑاؤ ہے
    یہاں بھی کچھ پل ہیں وہاں بھی کچھ پل ہیں

    ایں جا چہ کارم آں جا چہ کارم؟
    آہے فغانے آہے فغانے

    دونوں جہانوں میں میرا کیا کام ہے
    سوائے عشق میں آہ و فغاں کرنا

    ایں رہزنِ من آں رہزنِ من
    ایں جا زیانے آں جا زیانے

    یہ بھی لٹیری ہے وہ بھی لٹیری ہے
    یہاں بھی نقصان ہے وہاں بھی گھاٹا ہے

    ہر دو فروزم ہر دو بسوزم
    ایں آشیانے آں آشیانے

    میں دونوں کو جلا بخشتا ہوں،روشن کرتا ہوں
    چاہے یہ آشیاں ہو چاہے وہ ٹھکانا ہو

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

azkalam.com © 2019 | Privacy Policy | Cookies | DMCA Policy