مائیم کہ اصل شادی و کان غمیم
سرمایۂ دادیم و نہاد ستمیم
پستیم و بلندیم و زیادیم و کمیم
آئینہ زنگ خوردہ و جام جمیم
ہم لوگ جو کہ خوشیوں کا گھر تھے غم کی کان ہو گئے
زندگی کا سرمایہ دے دیا اور ستم کی بنیاد بن گئے
پست بھی ہیں بلند بھی زیادہ بھی ہیں کم بھی
ہمارے دل کے آئینہ کو زنگ لگ گیا ورنہ جمشید بادشاہ کے جام کی طرح ساری دنیا دیکھتے
Ithan Main Muthri Nit Jaan Ba Lab Oo Taan Khush Wasda Mulk Arab
اتھاں میں مٹھڑی نت جان بہ لب او تاں خوش وسدا وچ ملک عرب
ادھر میری جان پہ بنی ہوئی ہے اور وہ خوش و خرم ملک عرب میں بس رہا ہے
ہر ویلے یار دی تانگھ لگی سُنجے سینے سِک دی سانگ لگی ڈکھی دِلڑی دے ہتھ ٹانگھ لگی تھئے مل مل سول سمولے سب
ہر وقت محبوب کا انتظار ہے ویران سینے میں اشتیاق کا تیر لگا ہے دکھی دل کے ہاتھ سہارا آیا بھی تو غموں کے ہجوم کا جو دل میں سمائے ہوئے ہیں
تتی تھی جوگن چو دھار پھراں ہند سندھ پنجاب تے ماڑ پھراں سنج بار تے شہر بزار پھراں متاں یار ملم کہیں سانگ سبب
نیم جان دیوانی بن کر چاروں طرف پھرتی ہوں ہند ،سندھ پنجاب اور ماڑ پھرتی ہوں ویرانے اور شہر ہر جا پھرتی ہوں کہ کہیں میرا یار کسی سبب سے مل جائے
جیں ڈینہ دا نینہ دے شینہ پُٹھیا لگی نیش ڈکھاں دی عیش گھٹیا سر جوبن جوش خروش ہٹیا سُکھ سڑ گئے مر گئی طرح طرب
جس دن سے عشق کے شیر نے مجھے زخمی کیا ہے دکھوں کے نشتر لگ رہے ہیں عیش ختم ہو گیا ہے سر سے جوانی کا جوش و خروش اُتر گیا سکھ ختم ہو گئے اورخوشیاں مٹ گیئں ہیں
توڑیں دھکڑے دھوڑے کھاندڑیاں تیڈے نام تے مفت وکاندڑیاں تیڈی باندیاں دی میں باندڑیاں ہے در دیاں کُتیاں نال ادب
تیرے لئے دھکے اور ٹھوکریں کھاتی ہوں تیرے نام پر بے مول بک جاتی ہوں تیری باندیوں کے بھی باندی ہوں تیرے در کے کتوں کا بھی ادب کرتی ہوں
واہ سوہنا ڈھولن یار سجن واہ سانول ہوت حجاز وطن آدیکھ فرید دا بیت حزن ہم روز ازل دی تانگھ طلب
سبحان اللہ کیا پیارا لاڈلا محبوب ہے اور کیا ہی پیارا حجاز کا وطن ہے آ ذرا فرید کا غموں کا گھر تو دیکھ مجھے تو ازل سے ہی تیرا انتظار ہے
ہر چند کہ رنگ و روی زیباست مرا
چوں لالہ رُخ و چو سرو بالا ست مرا
معلوم نہ شد کہ در طربخانہ خاک
نقاشِ ازل بہر چہ آرا ست مرا
بے شک میرا حسن و جمال اور رنگ و روپ بہت خوب ہے
لالہ کی طرح سرخ اور سرو کی مانند دراز قد ہوں
لیکن سمجھ نہیں آتی کہ اس فانی دنیا مٹی کے گھر میں
قدرت نے مجھے کس لئے اتنے حسن و جمال سے نوازا ہے
محبوب کے بغیر میرا گزارا نہیں ہورہا انتظاربھی دم بدم اورذوق و شوق بھی بڑھ رہا ہے
کیتا ہجر تیڈے میکوں زارو رارے دل پارے پارے سر دھارو دھارے مونجھ وادھو وادھے ڈکھ تارو تارے رب میلے ماہی بیٹھی دھانہہ کر دی
تیرے جدائی مجھے زاروقطار رلا رہی ہے دل پارہ پارہ ہے اور سر بوجھل ہے افسردگی زوروں پر ہے اور غموں سے تار تار ہو گیا ہوں رب مجھے اس سے ملا دے میں ہر دم یہی فریاد کر رہی ہوں
کبھی تو ادھر بھی پھیرا لگا جائے پھیرا کر کے میرا حال پوچھ لے دل دکھوں سے بھرا ہے غموں نے ڈیرا ڈالا ہوا ہے رات کو آہیں بھرتیں ہوں دن کو زخموں سے چور ہوتی ہوں
پنوں خان میرے کیتی کیچ تیاری میں منتاں کر دی تروڑی ویندا یاری کئی نہیں چلدی کیا کیجئے کاری سٹ باندی بردی تھیساں باندی بر دی
پنوں خاں نے کیچ جانے کی ڈھان لی ہے میں منتیں کررہی ہوں لوگوں دیکھو عہد توڑ رہا ہے کچھ بس نہیں چلتا کیا کروں اپنی باندیوں کو چھوڑ کر میں اس کی باندی بننے کو تیار ہوں
رو رو فریدا فریاد کر ساں غم باجھ اس دے بیا ساہ نہ بھرساں جا تھیسم میلا یا رُلدی مرساں کہیں لا ڈکھائی دل چوٹ اندر دی
فرید رو رو کر ہر دم فریاد کرتی ہوں اس کے غم کے بغیر سانس بھی نہین بھرتی یا تو میں جا ملوں گی یا پھر ڈھونڈتے مر جاؤں گی دل کی چوٹ کاری ہے نظر بھی نہیں آتی
خیام کہ خیمہ ہای حکمت می دوخت
در کوزہ غم فتادہ ناگاہ بسوخت
مقراض اجل طناب عمرش بہ برید
دلال قضا بہ رائگانش بفروخت
خیام جو کہ فلسفہ و حکمت کے خیمے سیتا تھا
غم کی بھٹی میں اچانک گر گیا اور جل گیا
موت کی قنیچی نے جب اس کی عمر کی ڈور کاٹی
قضا و قدر کے دلال نے جسد خاکی کو بے مول ہی فروخت کر دیا