خلاصہ مطالبِ مثنوی
در تفسیر سورہَ اخلاص
قل ھواللہ احد
کہہ دو وہ اللہ ایک ہے
Man Shab e Siddque Ra Deedum b’Khawab
Gul Z Khak e Raah e Oo Cheedam b’Khawab
من شبے صدیق را دیدم بخواب
گل زِ خاک راہِ اُو چیدم بخواب
ایک رات میں نے خواب میں حضرت ابو بکر صدیق کو دیکھا
آپ کے راستے کی خاک سے میں نے خواب میں پھول چنے
آں امن الناس بر مولائے ما
آں کلیم اوّل سینائے ما
آپ سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہمارے مولا ہیں
آپ ہمارے طور(نبی کریم ؐ ) کے پہلے کلیم ہیں
ہمت اُو کشت ملت را چو ابر
ثانی اسلام و غار و بدر و قبر
آپ کی ہمت امت کی کھیتی کے لئے بادل کی مانند ہے
آپ ثانی اسلام و غار وبدر و قبر ہیں
گفتمش اے خاصہَ خاصانِ عشق
عشقِ تو سرِ مطلعِ دیوانِ عشق
میں نے آپ سے کہا کہ آپ عشق کے خاصوں سے بھی خاص ہیں
آپ کا عشق دیوان عشق کا پہلا شعر ہے
پختہ از دستت اساسِ کار ما
چارہ ے فرما پے آزارِ ما
آپ کے ہاتھوں سے ہمارے کاموں کی بنیاد مضبوط ہوئی
آپ ہمارے دکھ درد کا علاج فرمائیں
گفت تاکہ ہوس گردی اسیر
آب و تاب از سورہ اخلاص گیر
حضرت صدیق نے فرمایا کہ کب تک اُمت حرص و ہوس میں مبتلا رہے گی
اس اُمت کو سورہ اخلاس سے چمک دمک حاصل کرنی چاہیے
ایں کہ در صد سینہ پیچد یک نفس
سرے از اسرارِ توحید است و بس
یہ جو ہزاروں سینوں میں ایک ہی طرح سے سانس چل رہا ہے
یہ توحید کے رازوں میں سے ایک راز ہے
رنگ اُو برکن مثالِ او شوی
در جہاں عکس جمال او شوی
اس جہاں میں تو اس کے رنگ کو اختیار کر کے اس کی مانند ہو جا
اس جہاں میں اُس کے جمال کا عکس بن جا
آنکہ نامِ تو مسلماں کردہ است
اذ دوئی سوے یکی آورہ است
وہ ذات کہ جس نے تیرا نام مسلماں رکھا ہے
وہ تجھے دوئی سے وحدت کی طرف لائی ہے
خویشتن را ترک و افغان خواندہ ای
وائے بر تو آنچہ بودی ماندہ ای
تو خود کو ترک اور افغان کہلانا پسند کرتا ہے
افسوس تجھ پر کہ تو جو تھا اب نہیں ہے
وارہاں نامیدہ را از نامہا
ساز با خم در گذر از جامہا
تو اس قوم کو اتنے سارے ناموں سے نجات دلا
تو صراحی سے موافقت کر اور پیالوں سے جان چھڑا
اے کہ تو رسواے نام افتادہ عی
از درخت خویش خام افتادہ ای
اے کہ تو (قوم) اتنے سارے ناموں کی وجہ سے رسوا ہو گئی ہے
اور اپنے درخت سے کچے پھل کی طرح گر گئی ہے
با یکی ساز از دوئی بردار رخت
وحدت خود را مگرداں لخت لخت
تو توحید سے تعلق جوڑ اور دوئی کو رخصت کر دے
اپنی وحدت کو اس طریقے پر ٹکڑے ٹکڑے نہ کر
اے پرستار یکی گر تو توئی
تا کجا باشی سبق خوانِ دوئی
اے ایک کے پوچنے والے اگر تو تو ہے
تو کب تک دوئی کا سبق پڑھتا رہے گا
تو درِ خود را بخود پوشیدہ ای
در دل آور آنچہ بر لب چیدہ ای
تو نے اپنا دروازہ اپنے اوپر خود بند کر لیا ہے
تو جو زبان سے کہتا ہے دل سے بھی ادا کر
صد ملل از ملتے انگیختی
برحصارِ خود شبخوں ریختی
تو نے ایک ملت کی سو ملتیں بنا لیں ہیں
اپنے قلعے پر خود ہی شب خوں مارا ہے
یک شو و توحید را مشہود کن
غائبش را از عمل موجود کن
ایک ہو جا اور توحید کا اظہار کر دے
اپنے عمل سے غائب کو موجود کر دے
لذتِ ایماں فزاید در عمل
مردہ آں ایماں کہ ناید در عمل
ایمان کی لذت عمل کرنے سے بڑھتی ہے
مردہ ہے ایمان جس میں عمل نہ ہو
Allama Iqbal
علامہ اقبال