Jamalat Bawad Andar Ru e Adam

Jamalat Bawad Andar Ru e Adam
Ke Mai Bodash Shraf Bar Jumla Adam

جمالت بود اندر روئے آدم
کہ مے بودش شرف بر جملہ آدم

آدم کے چہرے پر تیرا جمال موجود تھا
اسی لئے اُسے تمام انسانوں پر فضیلت ملی

اگر این نقطہ دانستے عزازیل
ہزاران سجدہ آوردے دمادم

اگر یہ بات ابلیس جان جاتا
تو مسلسل ہزاروں سجدے کرجاتا

بر آدم منکشف جملہ اسمائے
ملائک اندران جا ماندہ ابکم

آدم ؑ پر تمام نام ظاہر ہوگئے
ملائک اس جگہ گونگے ہو گئے

کسے کورازبان بر بستہ نبود
حریم قدس او را   نیست محرم

جو اپنی زبان بند نہ رکھ سکے
وہ بارگاہ الہی کا راز دان نہیں ہو سکتا

چہ نامے ثنائش چند فصلے
نوشتہ بر جبین عرش اعظم

وہ کون سا نام نامی ہے کہ چند سطور
عرش اعظم کی پیشانی پر لکھی ہیں

رود آن نام را جانم بہ قربان
کنم آں نام را من دور پیہم

اس نام پر جان قربان کروں
میں اس نام کو دور پاتا ہوں

خوشا نامے و خوش آن صاحب نام
بہ جز نامش نباشد اسم اعظم

حسین وہ نام اور خوش شکل صاحب نام
اس نام کے سوا اسم اعظم ہرگز نہیں ہو سکتا

بہ عشق او شود دنیا و دین مست
اگر مستانہ آوازے بر آرم

اُس کے عشق میں دین و دنیا مست ہو جائیں
اگر ایک نعرہ مستانہ میں لگا دوں

شرف در صورت پاکش عیان دید
جمال لا یزالی را مسلم

شرف نے اس کی پاک صورت میں دیکھا ہے
حسن حقیقی و لا زوالی کو بلا شبہ

حضرت بوعلی شاہ قلندر
Hazrat Bu Ali Shah Qalandar

Bheeni Suhani Subhu Mein Dhandak Jigar Ki Hai Lyrics

Bheeni Suhani Subhu Mein Dhandak Jigar Ki Hai
Kalliyaan Khileen Dilon Ki Hawa Yeah Kidhar ki Hai

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے

ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے
سونپا خدا کو یہ  عظمت کس سفر کی ہے

مجرم بلائے آئے ہیں جاوءک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

پہلے ہو ان کی یاد کہ پائے جلا نماز
یہ کہتی ہے اذان جو پچھلے پہر کی ہے

سرکار ہم گنواروں میں طرز ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے

اپنا شرف دعا سے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی عصر کی ہے

کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دلہن مگر
ساری بہار دلہنوں میں دولہا کے گھر کی ہے

وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی بارات
ادنیٰ نچھاور اس مرے دولہا کے سر کی ہے

ہاں ہاں رہ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے

ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگی ٴ زلف و رخ آٹھوں پہر کی ہے

محبوب رب عرش ہے اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے

لب واہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے

قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بل ہزار کج
یہ ساری گتھی اک تیری سیدھی نظر کی ہے

مومن ہوں مومنوں پہ رؤف رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

مولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے

صدیق بلکہ غار میں جاں اس پر دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے

ہا ں تو نے ان کو جان انھیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کر چکے جو کر نی بشر کی ہے

ثابت ہوا جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

آ کچھ سنا دے عشق کے بولوں میں اے رضا
مشتاق طبع لذّتِ سوزِ جگر کی ہے

Alahazrat Imam Ahmad Raza
اعلی حضرت احمد رضا

Download Here:Bheeni Suhani Subhu Mein — Farzand Ali Soharwardi–AlaHazrat Naat– 786

Kon Sa Ghar Hai Ke Ae Jaan Nahin Kashana Tera Aur Jalu Khana Tera

Kon Sa Ghar Hai Ke Ae Jaan Nahin Kashana Tera
Aur Jalu Khana Tera

کون سا گھر ہے کہ اے جاں نہیں کا شانہ ترا
اور جلو خانہ ترا

میکدہ تیرا ہے کعبہ ترا بت خانہ ترا
سب ہے جانانہ ترا

تو کسی شکل میں ہو ترا شیدائی ہوں
ترا سودائی ہوں

تو اگر شمع ہے اے دوست میں پروانہ ترا
یعنی دیوانہ ترا

مجھ کو بھی جام کوئی پیر خرابات ملے
تیری خیرات ملے

تا قیامت یونہی جاری رہے پیمانہ ترا
رہے میخانہ ترا

تیرے دروازے پہ حاضر ہے تیرے در کا فقیر
اے امیروں کے امیر

مجھ پہ بھی ہو الطاف کریمانہ ترا
لطف شاہانہ ترا

صدقہ مے خانہ کا ساقی مجھے بے ہوشی دے
خود فراموشی دے

یوں تو سب کہتے ہیں بیدم ترا مستانہ ترا
اب ہوں دیوانہ ترا

بیدم وارثی
Bedam Warsi

Ae Dar Rukh e Tu Paida Anwaar e Paadshahi

Ae Dar Rukh e Tu Paida Anwaar e Paadshahi
Dar Fiqrat e Tu Pinhaan Sad Hikmat e ILaahi

اے در رُخ تو پیدا انوارِ پادشاہی
در فکرتِ تو پنہاں صد حکمتِ اِلہٰی

اے محبوب تیرے چہرے پر بادشاہی کے انوار پیدا ہورہے ہیں
تیری فکر میں اللہ کی سینکڑوں حکمتیں چھپی ہوئی ہیں

کلکِ تو بارک اللہ در ملک و دین کشادہ
صد چشمہ آب حیواں از قطرہ سیاہی

تیری قلم کو اللہ برکت دے کہ اس سے ملک اور دین
میں سینکڑوں چشمے آب حیات کے جاری ہو گئے اک قطرہ سیاہی سے

بر اہرمن نتابد انوار اسم اعظم
ملک آنِ تست و خاتم فرما ہر آنچہ خواہی

شیطان پر اسم اعظم کے انوار نہیں چمکتے
ملک اور شاہی مہر تیری ملکیت ہیں  تو جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے

در حشمت سلیمان ہر کس کہ شک نماید
بر عقل و دانش اُو خندند مر غ و ماہی

حضرت سلیماں کہ جاہ و جلال پر شک کرنے والے کی
عقل پر پرند ےاور مچھلیاں ہنستی ہیں

تیغے کہ آسمانش از فیض خود دہد آب
تنہا جہاں بگیرد و بے منت سپاہی

وہ تلوار جسے آسمان خود اپنے پانی سے فیض دیتا ہے
وہ تنہاہی جہاں کو فتح کر لیتی ہے بغیر کسی سپاہی کے

گر پرتوے ز تیغت بر کان و معدن افتد
یاقوت سرخ رو را بخشند رنگ کاہی

اگر تیری تلوار کا سایہ کان و معدن پر پڑ جائے
تو وہ سرخ یا قوت کو  زردرنگ بخش دے

دانم دلت بخشند بر اشک شب نشیناں
گر حال ما بپرسی  از باد صبحگاہی

جانتا ہوں کہ تیر ا دل شب بیداروں کے اشکوں پر بخشش کرتا ہے
اگر تو صبح کی ہوا سے ہمارا حال چال پوچھے

ساقی بیار آبے از چشمہ خرابات
تا خرقہ ہا بشوئیم از عجب خانقاہی

باز ارچہ گاہ گاہے بر سر نہد کلاہے
مرغان قاف دانند آیئن پادشاہی

باز کبھی کبھی اپنے سر پر بادشاہی کا  تاج رکھتا ہے
لیکن کوہ قاف کے پرندے زیادہ بہتر بادشاہی کے رموز جانتے ہیں

در    دود مان آدم تا دضع سلطنت ہست
مثل تو کس ندیدہ ااست ایں علم را کماہی

آدم کے خانوادے میں جب سے سلطنت وضع ہوئی ہے
تیری طرح کسی نے بھی علم کما حقہ نہیں سمجھا

کلکِ تو خوش نوسید در شان یار و اغیار
تعویز جانفزائے و افسون عمر کاہی

تیرا قلم اپنوں اور غیروں کے بارے میں اچھا لکھتا ہے
گویا جان بڑھانے کا تعویز اور عمر گھٹانے کا منتر ہے

عمریست پادشاہا کز مے تہیست جامم
اینک ز بندہ دعویٰ و زمحتسب گواہی

عمر گزر گئی ہے اے بادشاہ کہ میرا جام خالی ہے
میرے اس دعویٰ کا کوتوال بھی گواہ ہے

اے عنصر تو مخلوق از کمیائے عزت
وائے دولت تو ایمن از صد متِ تباہی

اے ممدوح تیر ا وجود عزت کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے
تیر ی دولت تباہی سے محفوظ ہے

جائیکہ برقِ عصیاں  بر آدم صفی زد
ما را چگونہ زیبد دعوائے بے گناہی

جب آدم صفی اللہ بھی لغزشوں کی بجلی کی زد میں آگئے
تو ہما را بے گناہی کا دعویٰ زیب نہیں دیتا

یا ملجا  ء البرایا یا واھب العطایا
عطفا علی مقل حلت بہ الدواہی

اے مخلوق کی پناہ گاہ اور بخشنے والے
اس درویش پر بھی مہربانی فرما جو زمانے کے حادثات میں پس چکا ہے

جور از  فلک نیاید تا تو ملک صفاتی
ظلم از جہاں بروں شد تا تو جہاں پناہی

آسمان ظلم نہیں کر سکتا جب تک تو فرشتہ صفت موجود ہے
ظلم جہاں سے باہر چلا گیا ہے جب سے تو جہاں پناہ ہوا ہے

حافظ چو دوست از تو گہ گاہ می برد نام
رنجش ز بخت منما باز آبعذر خواہی

اے حافظ جب تک دوست کبھی کبھی تیرا نام لیتا ہے
تو اپنے بخت سے خفا نہ ہو اور بار بار عذر خواہی کر

Deewan E Hafiz Shirazi
دیوان حافظ شیرازی

Bulleh Nu Samjhawan Aaiyaann Bhaena Tey Bharjayee-yan Lyrics

Bulleh Nu Samjhawan Aaiyaann Bhaena Tey Bharjayee-yan

Bulleh Nu Samjhawan Aaiyaann Bhaena Tey Bharjayee-yan
Man Lay Bulleya Sada Kena, Chad Day Palla Raaiyan

بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں
من لے بلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلّا رائیاں

Bulleh Shah’s sisters and sisters-in-laws came to convince him.
Bulleya, please do as we tell you and leave the Arain’s (his guru’s) company.

آل نبی اولادِ علی نوں، توں کیوں لیکاں لائیاں

Aal e Nabi Ullad e Ali, Nu Tu Kyun Lee-kaan Laiyaan.

You are born into the family of prophet, you are heir of Ali,
So why do you ruin your family’s name like this.

جیہڑا سانوں سیّد سدّے، دوزخ ملن سزائیاں
جو کوئی سانوں رائیں آکھے، بہشتیں پینگھاں پائیاں

Jeyra Saanoun Syed Saday Dozakh Milay Sazaiyaan.
Jo Koi Saanu Raie Aakhe, Bhisti Peenghaan Paian.

Those who address me as Syed, shall be condemned to hell.
Those who address me as Raie, shall ride the swings in heaven.

آرائیں سائیں سبھنیں تھائیں، رب دیاں بے پروائیاں
سوہنیاں پرے ہٹائیاں نیں تے، کوجھیاں لے گل لائیاں

Raien, Saayin, Sabhin Thaayein, Rab Deyaan Bay Parwaaiyaan,
Sohniyaan Paray Hatayaan Tay, Khojeyaan Lay Gall Laiyaan.

Arain and masters are born at every place, God does not discriminate against anyone,
The lord is so carefree, That he neglects the beautiful (others) and hugs the ugly.

جے توں لوڑیں باغ بہاراں، چاکر ہوجا رائیاں
بلھے شاہ دی ذات کہہ پچھنایں، شاکر ہو رضائیاں

Jay To Lorain Baagh Baharaan ,Chaakar Ho Ja Araiyaan.
Bulley Shah Dee Zaat Kee Puchni, Shaakar Ho Razayaan.

If you seek the pleasure of a heaven in spring, go and become a servant of the Araiens,
O’ do not ask Bullah his caste; Be thankful and be content with the lord’s creation.

Reference: http://usama-aman.blogspot.com/2010/08/bulleh-nu-samjhawan-aaiyan.html

Bulleh Shah
بلھے شاہ

Qalandaran Ke Ba Taskheer e Aab o Gill Koshand

Qalandaran Ke Ba Taskheer e Aab o Gill Koshand
Ze Shah Baj Sitanand o Khirqa Me Poshand

قلندراں کہ بہ تسخیر آب و گل کو شند
ز شاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند

قلندر ہوا مٹی آگ پانی سب پر حکم چلاتے ہیں
خود گدڑی پہنے ہوتے ہیں اور بادشاہوں سے خراج وصول کرتے ہیں

بجلوت اندو کمندے بہ مہرو ماہ پیچند
بخلوت اندو زمان و مکاں در آغوشند

جلوت میں سورج و چاند پر اپنے تصرف کی کمند ڈالتےہیں
خلوت میں اپنی آغوش میں زمان و مکاں کو لئے ہوتے ہیں

بروز بزم سراپا چو پرنیان و حریر
بروز رزم خود آگاہ و تن فراموشند

محفل میں ان کی زبان سے ریشم اور پھول جھڑتی ہے
جنگ میں وہ اپنے اپ سے آگاہ ہو کر جسم فراموش کرتے ہیں

نظام تازہ بچرخ وو رنگ می بخشند
ستارہ ہائے کہن را جنازہ بر دوشند

دو رنگے آسمان کو نیا نظام بخشتے ہیں
پرانے ستاروں کی گردش کا خاتمہ ان کی ابرو کی جنبش سے ہوتا ہے اور اپنے کندھوں پر ان کا جنازہ اٹھاتے ہیں

زمانہ از رخ فردا کشود بند نقاب
معاشراں ہم سر مست بادۂ دوشند

زمانے نے تو آنے والے وقت کی نقاب کھول دی ہے
مگر(مسلم)معاشرہ ابھی تک پچھلے وقت کو یاد کر کے خوش ہو رہا ہے

بلب رسید مرا   آں سخن کہ نتواں گفت
بحیرتم کہ فقیہان شہر خاموشند

میرے لبوں پر وہ بات آ گئی ہے جو بیان نہیں ہو سکتی
حیرت ہے کہ شہر کی فقیہ خاموش ہیں

Allama Iqbal
علامہ اقبال

Nami Danam Ke Aakhir Chun Dam e Deedar Me Raqsam

Nami Danam Ke Aakhir Chun Dam e Deedar Me Raqsam
Magar Nazam Ba Ein Zouq e Ke Paish Yaar Me Raqsam

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم

مجھےنہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں ناچ رہاہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے ناچتا ہوں

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم

تُو وہ قاتل ہے کہ تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے ناچتا ہوں

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آ، اے محبوب  اورتماشا دیکھ کہ جانبازوں کی بھِیڑ میں،  میں سینکڑوں رسوائیوں کےسامان کےساتھ ،سر بازار ناچتا ہوں

خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ ! مے نوشی کہ جس کیلیے میں نے سینکڑوں پارسائیوں کو پامال کر دیا، خوب! تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ ناچتا ہوں

اگرچہ قطرۂ شبنم نپوئید بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بنوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں پڑتا لیکن میں شبنم کا وہ قطرہ ہوں کہ کانٹے کی نوک پر ناچتا ہوں

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہر طرزے کہ رقصانی منم اے یار می رقصم

توہر وقت جب بھی مجھے نغمہ سناتا ہے، میں  ہر بار ناچتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو رقص کراتا ہے، اے یار میں ناچتا ہوں

سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم

سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہےاس  بیخودی پر میں قربان جاؤں،کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد ناچتا ہوں

مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں
منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم

اے ظاہر دیکھنے والے مدعی !مجھے طعنہ مت مار،میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار ناچتا ہوں

کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم
گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم

عشق کا دوست تو ہر گھڑی آگ میں ناچتا ہے،کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں ،کبھی کانٹے پر ناچتا ہوں

منم عثمانِ ھارونی کہ یارے شیخِ منصورم
ملامت می کند خلقے و من برَ،دار می رقصم

میں عثمان ھارونی ،شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں سولی پر ناچتا ہوں

Khwaja Usman Harooni
خواجہ عثمان ہارونی

Download Link: Nami Danam Ke Aakhir Chun Dam e Deedar Me Raqsam-Usman Harooni–Farzand Ali Soharwardy –Mehfil Meelad– 6-5-4 —786

Text Reference: http://aljellani.blogspot.com/2012/01/blog-post_5148.html

Guftam Ghame To Daram Gufta Ghamat Sar Ayad

Guftam Ghame To Daram Gufta Ghamat Sar Ayad
Gufta Ke Maah Man Sho Gufta Agar Bar Ayad

گفتم غم تو دارم گفتا غمت سر آید
گفتم کہ ماه من شو، گفتا اگر برآید

گفتم ز مہرواں رسم وفا بیاموز
گفتا ز ماہ رعیاں ایں کار کمتر آید

گفتم کہ بوئے زلفت گمراه عالمم کرد
گفتا اگر بدانی ہم اُوت رہبر آید

گفتم خوشا هوایی کز باد صبح خیزد
گفتم که نوش لعلت ما را به آرزو کشت

گفتم دل رحیمت کے عزم صلح دارد
گفتا بکش جفارا تا وقتِ آں در آید

گفتم کہ بر خیالت راه نظر ببندم
گفتا کہ شبروست ایں ازراہِ دیگر آید

گفتم خوش آں ہوائے کز باغ خلد خیزد
گفتا خنک نسیمے کز کوئے دلبر آید

گفتم کہ نوشِ لعلت مارا بآرزو کشت
گفتا تو بندگی کن کاں بندہ پرور آید

گفتم زمان عشرت دیدی کہ چو سر آمد
گفتا خموش حافظ کایں غصّہ ہم سر آید

Hafiz Shirazi
حافظ شیرازی

Saheefa Ghausia (Sharah Nazam o Nasar Urdu) Qaseeda Ghausia

Saheefa Ghausia (Sharah Nazam o Nasar Urdu) Qaseeda Ghausia
صحیفہ غوثیہ (شرح نظم و نژ اُردو)  قصیدہ غوثیہ

جام اوّل

سَقَانِی الحُبُ کاَسَاتِ الوَصَالِ
فَقُلتُ لَخمرَتیِ نَحوِی تَعَالِی

عشق نے بھر کے پلائے مجھ کو جام
وصلِ دلبر سے ہوا میں شاد کام
پھر کہا میں نے شرابِ وصل سے
مُجھ میں مل جا  آ کے اپنی اصل سے

جام دوئم
کیفیتِ وجدانی

سَعتَ و مَشْتَ وَ لَنحْوِیْ فیِْ کئوس
فَھمْتُ لِسُکرِتیِ بیْنَ الْموَالْی

آ گیا وہ خمر طاہر پُر سُرور
بے پناہ تھیں مستیاں جس کے حضور
پی کے اس کو پی سے میں فورا ٌ ملا
اور ہمعصروں کو بھی حصّہ دیا

جام سوئم
وارداتِ معانی

فَقُلتُ لِسَا ئرِالاقْطابِ لُمّوُا
بِحاَلیْ وَادْخُلوُ آنْتْم رِجَالِی

پھر کہا میں نے یہ کلُ اقطَاب کو
حاضروغائب شیوخ و شاب کو
دیکھ لو سب میرے حال و قال کو
اور میری محفل اشغال کو

جام چہارم
در سر شاریٗ ارغوانی

وَھُمو وَاشْرَبُوا آنْتُم جُنُودیِ
فَسَاقیِْ الْقوْمِ بالوَافیْ المَلَا لیِ

قصد سے اپنے پیو بے انتہا
کیونکہ ہو لشکر میرے تم بر ملا
ساقیٗ میخانہ عرفان ہوں
میں ہی ہر طالب کا اطمینان ہوں

جام پنجم
بزم افروزی معانی

شَرْبتُم فضْلتِی مِنْ بَعْدِ سُکْرِی
وَلاَ نَلتم علّوِی وَاتِّصَالیِ

پی چُکا جب میں تو اِک مَستی ہُوئی
پھر شراب معرفت سَستی ہوئی
میرے پس خوردہ کا تھا یہ رنگ ڈھنگ
پی کہ تم بھی ہوگئے شیرو نہنگ

جام ششم
فیض ربّانی

مُقَامُکُمُ الْعلیٰ جَمعاٌ ولَکنْ
مُقامیِ فَوقَکم ْ مَا زَالَ عَالی

ہیں تمہارے وہ مقامات بلند
پا نہیں سکتی جنھیں علمی کمند
پر مرا درجہ بہت محمود ہے
جو تمہاری منزل مقصود ہے

جام ہفتم
قرب ربّانی

اَناَ فِیْ حضرۃِ التقرِیب وَحدیْ
یُصرفنیِ و حسبی دوالجلالی

ہوں یگانہ قرب میں پیش الٰہ
وصل مجھے حاصل ہے شام و پگاہ
ہے بدلتا رہتا میرا حال وقال
ہے مجھے کافی خدائے ذولجلال

جام ہشتم
پرواز لا مکانی

اَنَا البَازی اَشْھبُ کلُّ شیَخ
وَ مَنْ ذَاِ فی الِرجَالِی اُعطَی مثالی

بارگاہ قدس کا شہباز ہوں
لا مکاں میں برسر پرواز ہوں
کون ہے کس کو ملا ہے یہ مقام
جس نے پایا مجھ سے پایا لاکلام

جام نہم
خلعت لا ثانی

کسَانِی خِلْعَۃً بِطَراز عَزم
وَتوجَنِی بِتیِجَانِ الَکمَالْی

خرقہ پہنایا مجھے تعظیم کا
سر پہ میرے تاج ہے تکریم کا
ہے الو العزمی میری ادنےٰ کنیز
بے نیازی ہے مری عقلی تمیز

جام دہم
اسرار نہانی

کسَانِی خِلْعَۃً بِطَراز عَزم
وَتوجَنِی بِتیِجَانِ الَکمَالْی

ہو گیا میں واقف اسرار حق
عہد ازلی کا ہوا ازبر سبق
آرزوئیں ہو گیئں پوری تمام
میں نے جو مانگا وہ پایا لا کلام

جام یاز دہم
اختیارات حکمرانی

وَوَلَّانِی عَلَ الاقَطَاب جَمْعًا
فحکمِی نَافذٌفِی کل حَالی

ہو گیا اقطاب کا میں حکمران
زیر فرمان ہیں مرےسب بے گمان
حکم جاری ہے مرا سب کے تئیں
ہر زمان و ہر مکان میں بالیقیں

جام دو از دہم
تصرف کن فکانی

وَ لَو القَیتُ سَرِّی  فی بحار
لصار الکل غورا فی الزوالی

میں اگر ڈالوں یہ دریاؤں پہ راز
جس نے مجھ کو کر دیا ہے شاہباز
خشک ہو جائیں وہ سارے سر بسر
اور اک قطرہ نہ پائیں پُر حذر

جام سیز دہم
فخر سّر عرفانی

وَ لَو القَیتُ سَرِّی  فی جبال
لدکت واختضت بین الرمالی

اور گر ڈالوں میں ان اسرار کو
دیکھ کر اک سخت جاں کو ہسار کو
پارہ پارہ ہو کے مٹ جائیں ضرور
بیچ ریگستان کے مانند طور

جام چہار دہم
در جذبہ نورانی

وَ لَو القَیتُ سَرِّی فَوْقَ نَارِِ
لَخَمِدَتْ وَانطَفَتْ مِنْ سرِّ حَا لی

آتش سوزاں پہ ڈالوں گر میں راز
جذب کے شعلے سے ہو وہ جانگداز
نار کیا ہے نور کے پیش نظر
آتش نمرود سے ہو سرد تر

جام پانزدہم
در حیات جاودانی

وَ لَو القَیتُ سَرِّی  فَوقَ میت
لَقَامَ بِقُدْرَۃِالمَوْلیٰ تِعِالیِٰ

گر میں اپنا راز دوں مردے پہ ڈال
زندہ ہو جائے بفضل ذوالجلال
ہے خداوند دو عالم کی پسند
جس کو چاہے بخش دے درجے بلند

جام شانزدہم
عطائے رحمانی

وَمَا مِنْھَا شُھُوْر اَوْ دُھُور
تَمرُ وَ تَنقَضِیْ  اِلاَّ اَتَیٰ لیِ

دَہر میں آتے جو ماہ و سال ہیں
تابع فرماں میرے وہ ہر حال ہیں
سب سے پہلے آتے ہیں وہ میرے پاس
پھر جہاں میں کرتے ہیں اعمال خاص

جام ہفدہم
علم زمانی

وَ تُخبِرُ نیِْ بِماَ یاَتیْ وَ یَجرْیْ
وَتُعْلِمْنیْ فَاقصرُ عن جِدالی

خبر دیتے ہیں مجھے ہر آن کی
عیش کی غم کی شکست و شان کی
یہ نہیں فضل خدا پر کچھ محال
چھوڑ دے اے معترض سب قیل و قال

جام ہژدہم
پیام اعظم شانی

مرُیدیِ ھَمّ وَ طبِ واشطحْ و غَنّی
وَاَفعَلْ ماَ تَشَا فَا لاسمُ عَالی

اے اراتمند ہمت کر عزیز
بے نیازی کو رکھ عقلی تمیز
ہو کے خوش جو چاہے دل سے کر سدا
نام سے میرے تو ہو گا با خدا

جام نوز دہم
غلبہ ایمانی

مرُیدیِ لاَ تَخَفْ اللہُ رَبّیِ
عَطَانیِ رِفعۃٌ نِلتُ المُنالیِ

اے ارادتمند غیروں سے نہ ڈر
آسرا ہے مجھ کو اس کی ذات پر
جس خدا نے بخششیں ہیں عام کیں
اور بے حد نعمتیں انعام کیں

جام بستم
بلندئ مکانی

طُبولیِ فیِ اسماءِ وَ الارضِ دقّتْ
وَشَاوٗسُ ا لسّعادَۃِ قَدْ بَرَالیْ

بج گیا ڈنکا میری تقدیس کا
گڑگیا جھنڈا میری تخصیص کا
کہ گیا ہے مجھ کو یہ روح الامین
تیرے ہیں ارض وسما زیر نگیں

جام بست و یکم
اقتدار شاہجہانی

بِلاَدُ اللہِ ملکی تَختَ حکْمیْ
وَوَقْتی قَبل قَبلیْ قَدْ صفَالی

ہیں خدا کے ملک میرے ہاتھ میں
اور مافیہا و دنیا ساتھ میں
مل گیئں مجھ کو ازل سے خوبیاں
ہیں بلندی پر مری محبوبیاں

جام بست و دوم
وسعت سرِ لا مکانی

نَظَرْتُ الیٰ بَلاَد اللہِ جَمعاً
کخردَلَۃ عَلیٰ حکمِ اتصَّالی

دیکھتا ہوں کل خدا کی کائنات
سامنے میرے ہیں پوری شش جہات
سامنے میرے ہیں ایسے سب جہاں
جس طرح رائی کا دانہ بے گماں

جام بست و سوم
درس قرآنی

دَرَسْتُ العَلمَ حتَّی صرْتُ قطباً
وَ نُلیہ السّعدَ مَنْ مولی المُوالی

درس اور تدریس علم دین نے
معرفت ربّی کے اس آیئن نے
اس قدر درجے کئے مجھ کو عطا
غوث سارے جہاں کا میں ہو گیا

جام بست و چہارم
دعوےٰ لا ثانی

فَمَنْ فیِ اولِیاَ اللہِ مِثلیِْ
وَ مَنْ فَیْ العلم وَ التّصرِیفِ حَالی

کس کو میر ی ہمسری کا ہو خیال
اولیا میں جب نہیں میری مثال
کون ہے جو علم میں تعریف میں
ہو مقابل حال میں تصریف میں

جام بست و پنجم
تعلق دامانی

رِجَالیِْ فیِ ھوَاجِرْ ھمْ صِیامٌ
وَفِی ظُلَمَ اللّیَالِی کاَللُاََلِی

میرے متبعین نیکو کار ہیں
عابدو مرتاض روزے دار ہیں
رات کی تاریکیوں میں ذوق سے
یاد کرتے ہیں خدا کو شوق سے

جام بست و ششم
علّو شاہ جیلانی

وَکلُّ وَلیِّ لَہُ قَدَمٌ وَ اِنِّیْ
عَلیٰ قَدَمِ انَّبِّی بَدْرِ الکَمَالی

منزل قرب و تقرب میں عزیز
ہر ولی کی ہے جدا گانہ تمیز
پر میں سب میں خاص عالی پایہ ہوں
رحمت عالم کے زیر سایہ ہوں

جام بست و ہفتم
ذوق فیض رسانی

مرُیدیِ لاَ تَخفْ وَاشِ فَانِّی
عَزوْمٌ قاَتل عَندَ الِقتَا لی

اے اراتمند میرے ڈر نہ کر
میں چمکتی ہوں تیری سپر
جنگ میں میں قاتل اشرار ہوں
رنگ میں اللہ کی گفتار ہوں

جام بست و ہشتم
اعلام جہانبانی

اَنَا الجِیلّیُ مُحیْ الدّْینِ لَقبیِ
وَ اعْلا میِ عَلیٰ رَاءسِ الجِبَالی

میر امحی الدین جیلانی ہے نام
زندگی ملت کو دینا میرا کام
ہے مری تقدیس نورونارمیں
میرے جھنڈے گڑ گئے کوہسار میں

جام بست ونہم
نسبت خاندانی

اَنَالحَسَنُتِی وَالمخدَعْ مَقَامی
وَاَقْدَامی عَلیٰ عُنُقِ الرِجَالیِ

نسب ہے حسنی مرا مخدع مقام
راز پوشیدہ کا آیا ہوں امام
سب میرے نیچے ہیں اس عرفان میں
ہے قدم میرا ہی اونچا شان میں

جام سی ام
اسم غوث صمدانی

وَ عبْدالقَادِرِالمَشھُورُ اِسْمی
وَجَدّی صَاحِبُ العَینِ الَکمَالی

عبد قادر نام میں مشہور ہوں
سیدوعالی نسب منشور ہوں
جدّ میری ہے بہت عین الکمال
جو ہے محبوب خدائے ذوالجلال

Hazrat Syed Abul Faiz Qalandar Ali
حضرت سید ابو الفیض قلندر علی سہروردی

Woh Sarwar e Kishwar e Risalat (Qaseeda Mairaj Lyrics)

Woh Sarwar e Kishwar e Risalat Jo Arash Pe Jalwah Gar Howay Thay
Naye Nirale Tarab Ke Saaman Arab Ke Mahmaan Ke Liye Thay

وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے سَاماں عرب کے مہماں کے لئے تھے

The King of Prophets shined on the divine throne of Allah
Special arrangements were made by Allah to welcome this guest of Arab.

وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے

There at Heavens were wedding celebrations and here at earth were announcements everywhere.
The Dazzling Lights were coming with smile from Heaven and Fragrant Perfumes were being produced from Earth

اُتار کے اُن کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہاتھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

The Noor light was being distributed as a charity of his Face.
The Moon And The Sun were at forefront to collect their part from forehead.

وہی تو اب تک چھلک ہرا ہے وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے

The same luminous water is still overflowing and leaking from stars in shape of light
The stars reserved the bath water and filled their cups.

بچا جو تلو وں کا ان کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
جنھوں نے دولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے

The remaining water was used to color and paint the Paradise
The groom dress was distributed among the brighting flowers of the Paradise

اُٹھے جو قصرِ دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دوئی کی نہ کہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے

The curtains of the nearness were raised How can any one bring news of that moment
There is no room for secondness .Dont say he wasn’t, Beware He was.

محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چَکر میں دائرے تھے

حجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ دصل و فرقت جنم کہ بچھڑے گلے ملے تھے

وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اس کی طرف گئے تھے

کمان امکاں کے جھوٹے نقطوں تم اّول آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے

نبیِ رحمت شفیعِ اُمت رضؔا پہ للہ ہو عنائت
اُسے بھی ان خلعتوں سے حصّہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے

ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سَرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ردی تھی کیا کیسے قافیے تھے

Alahazrat Imam Ahmad Raza
اعلی حضرت احمد رضا

Download mp3 Link:Woh Sarwar e Kishwar e Risalat Jo Arash Pe Jalwah Gar Howay Thay

azkalam.com © 2019 | Privacy Policy | Cookies | DMCA Policy