Tag: Zaboor e Ajam

  • Man Banda e Azadam Ishq Ast Imam Man

    Man Banda e Azadam Ishq Ast Imam Man
    Ishq Ast Imam Man Aqal Ast Ghulam Man

    من بندہ آزادم عشق است امام من
    عشق است امام من عقل است غلام من

    میں آزاد بندہ ہوں،عشق میرا امام ہے
    عشق  میرا امام ہے اور عقل میری غلام ہے

    ہنگامۂ ایں محفل از گردش جام من
    ایں کوکب شام من ایں ماہ تما م من

    اس محفل کا شور اصل میں میرے جام کی گردش کے باعث ہے
    یہ چاند اور ستارہ میری شام کے لئے ہیں

    جاں در عدم آسودہ بے ذوق تمنا بود
    مستانہ نواہازد در حلقہ دام من

    روح عدم میں آرزو و تمنا کے ذوق سے خالی تھی
    جب وہ میرے قالب میں آئی تو مستانے ساز و نغمے چھڑے

    اے عالم رنگ و بو ایں صحبت ما تا چند
    مرگ است دوام تو عشق است دوام من

    اے جہان یہ تیر ی میری صحبت کب تک باقی ہے
    تجھے تو  موت آجانی ہے اور مجھے عشق کی بدولت بقاو دوام حاصل ہے

    پیدا بضمیرم او پنہاں بضمیرم او
    ایں است مقام او دریاب مقام من

    وہ میرے باطن میں پوشیدہ بھی ہے ظاہر بھی ہے
    یہ تو اُس کا مقام ہے ، اب میرا مقام دریافت کر

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Beeni Jahan Ra Khud Ra Na Beeni

    Beeni Jahan Ra Khud Ra Na Beeni
    Ta Chand Nadaan Ghafil Nasheeni

    بینی جہاں را خود را نہ بینی
    تا چند ناداں غافل نشینی

    تو جہان کو دیکھتا ہے ، اپنے آپ کو نہیں دیکھتا
    اے نا سمجھ تو کب تک غفلت میں بیٹھا رہے گا

    نور قدیمی شب را بر افروز
    دست کلیمی در آستینی

    تو ایک قدیم نور ہے، رات کو روشن کر
    تیری آستین میں تو کلیم کا ہاتھ ہے

    بیروں قدم نہ از دورِ آفاق
    تو پیش آزینی تو بیش ازینی

    تو اس کائنات سے باہر قدم رکھ
    تو اس سے آگے کی چیز ہے تری قدروقیمت بھی اس سے زیادہ ہے

    از مرگ ترسی اے زندہ جاوید؟
    مرگ است صیدے تو در کمینی

    کیا تو موت سے ڈرتا ہےاے ہمیشہ رہنے والے
    موت تو خود تیری کمین گاہ کا شکار ہے

    جانے کہ بخشند دیگر نگیرند
    آدم بمیرد از بے یقینی

    زندگی (جان)تو خدا کا عطیہ ہے جو واپس نہیں لیا جاتا
    آدمی تو اپنی بے یقینی کی وجہ سے مر جاتا ہے

    صورت گری را از من بیا موز
    شاید کہ خود را باز آفرینی

    مجھ سے مصوری کا فن سیکھ
    عجب نہیں کہ تو اپنے آپ کو تعمیر کر لے

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Een Hum Jahaney Aan Hum Jahaney

    Een Hum Jahaney Aan Hum Jahaney
    Een Baekaraney Aan Baekaraney

    ایں ہم جہانے آں ہم جہانے
    ایں بیکرانے آں بیکرانے

    یہ دنیا بھی ایک جہان ہے،آخرت بھی ایک جہان ہے
    یہ بھی بیکراں ہے ، وہ بھی لا محدود ہے

    ہر دوخیالے ہر دو گمانے
    از شعلۂ من موج دخانے

    دونوں ہی خیال ہیں ، دونوں ہی قیاس ہیں
    میرے شعلے کے دھویئں کی لہریں ہیں

    ایں یک دو آنے آں یک دو آنے
    من جاودانے ، من جاودانے

    یہ بھی ایک دو پل ہے ، وہ بھی ایک دو پل (عارضی)ہے
    میں جاوداں ہوں ، مجھے بقا حاصل ہے

    ایں کم عیارے آں کم عیارے
    من پاک جانے نقد روانے

    یہ بھی کم قیمت ہے ، وہ بھی بے قدر ہے
    میں پاک جان کھری نقدی سکہ ہوں

    ایں جا مقامے آں جا مقامے
    ایں جا زمانے آں جا زمانے

    ادھر بھی کچھ وقت کے لئے مقیم ہوں اُدھر بھی وقتی پڑاؤ ہے
    یہاں بھی کچھ پل ہیں وہاں بھی کچھ پل ہیں

    ایں جا چہ کارم آں جا چہ کارم؟
    آہے فغانے آہے فغانے

    دونوں جہانوں میں میرا کیا کام ہے
    سوائے عشق میں آہ و فغاں کرنا

    ایں رہزنِ من آں رہزنِ من
    ایں جا زیانے آں جا زیانے

    یہ بھی لٹیری ہے وہ بھی لٹیری ہے
    یہاں بھی نقصان ہے وہاں بھی گھاٹا ہے

    ہر دو فروزم ہر دو بسوزم
    ایں آشیانے آں آشیانے

    میں دونوں کو جلا بخشتا ہوں،روشن کرتا ہوں
    چاہے یہ آشیاں ہو چاہے وہ ٹھکانا ہو

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Qalandaran Ke Ba Taskheer e Aab o Gill Koshand

    Qalandaran Ke Ba Taskheer e Aab o Gill Koshand
    Ze Shah Baj Sitanand o Khirqa Me Poshand

    قلندراں کہ بہ تسخیر آب و گل کو شند
    ز شاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند

    قلندر ہوا مٹی آگ پانی سب پر حکم چلاتے ہیں
    خود گدڑی پہنے ہوتے ہیں اور بادشاہوں سے خراج وصول کرتے ہیں

    بجلوت اندو کمندے بہ مہرو ماہ پیچند
    بخلوت اندو زمان و مکاں در آغوشند

    جلوت میں سورج و چاند پر اپنے تصرف کی کمند ڈالتےہیں
    خلوت میں اپنی آغوش میں زمان و مکاں کو لئے ہوتے ہیں

    بروز بزم سراپا چو پرنیان و حریر
    بروز رزم خود آگاہ و تن فراموشند

    محفل میں ان کی زبان سے ریشم اور پھول جھڑتی ہے
    جنگ میں وہ اپنے اپ سے آگاہ ہو کر جسم فراموش کرتے ہیں

    نظام تازہ بچرخ وو رنگ می بخشند
    ستارہ ہائے کہن را جنازہ بر دوشند

    دو رنگے آسمان کو نیا نظام بخشتے ہیں
    پرانے ستاروں کی گردش کا خاتمہ ان کی ابرو کی جنبش سے ہوتا ہے اور اپنے کندھوں پر ان کا جنازہ اٹھاتے ہیں

    زمانہ از رخ فردا کشود بند نقاب
    معاشراں ہم سر مست بادۂ دوشند

    زمانے نے تو آنے والے وقت کی نقاب کھول دی ہے
    مگر(مسلم)معاشرہ ابھی تک پچھلے وقت کو یاد کر کے خوش ہو رہا ہے

    بلب رسید مرا   آں سخن کہ نتواں گفت
    بحیرتم کہ فقیہان شہر خاموشند

    میرے لبوں پر وہ بات آ گئی ہے جو بیان نہیں ہو سکتی
    حیرت ہے کہ شہر کی فقیہ خاموش ہیں

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

azkalam.com © 2019 | Privacy Policy | Cookies | DMCA Policy