Tag: Persian Poetry

  • Na Az Saaqi Na Az Paimana Guftam Hadees Ishq Be Bakana Guftam

    Na Az Saaqi Na Az Paimana Guftam
    Hadees Ishq Be Bakana Guftam

    نہ از ساقی نہ از پیمانہ گفتم
    حدیث عشق بے باکانہ گفتم

    میں نے نہ تو ساقی اور نہ ہی پیمانے کی بات کی جیسے کے عام شعرا کرتے ہیں
    بلکہ عشق کی باتیں کھل کھلا کہ نڈر ہو کر کی ہیں

    شنیدم آنچہ از پاکانِ اُمت
    ترا با شوخی رندانہ گفتم

    جو کچھ کہ میں نے اس اُمت کے پاک لوگوں سے سنا
    تیرے لئے رندانہ شوخی لئے شاعری میں بیان کر دیا

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Man Ke Basham Az Bahar e Jalwa e Dildar Mast

    Man Ke Basham Az Bahar e Jalwa e Dildar Mast
    Choon Maney Naid Nazar Dar Khana Khumaar Mast

     من کہ باشم از بہار جلوہ دلدار مست
    چون منے ناید نظر در خانہ خمار مست

    میں تو دلدار کے جلوے کی بہار سے مست ہوں
    میخانے میں میری طرح کا مست نظر نہیں آتا

    مے نیاید در دلش انگار دنیا ہیچ گاہ
    زاہدا ہر کس کہ باشد از ساغر سرشار مست

    شراب کے آنے سے دل میں دنیا کی قدر ختم جاتی ہے
    اے زاہد جو کوئی بھی ساغر سرشار سے مست ہو

    جلوہ مستانہ کر دی دور ایام بہار
    شد نسیم و بلبل و نہر و گلزار مست

    تو نے بہار کے دنوں میں اپنا جلوہ مستانہ دکھایا
    جس کی وجہ سے ہوا و بلبل ، نہر و پھول و باغ سبھی مست ہو گئے

    من کہ از جام الستم مست ہر شام کہ سحر
    در نظر آید مرا ہر دم درو دیوار مست

    میں تو روز ازل سے جام الست سے مست ہوں اور ہر صبح و شام
    درودیوار ہر لمحے مجھے مست نظر آتے ہیں

    چون نہ اندر عشق او جاوید مستیہا کنیم
    شاہد مارا بود گفتار و ہم رفتار مست

    میں کیوں اس کے عشق میں مستیاں نہ کروں
    جب کہ محبوب کہ رفتار و گفتار دونوں ہی مست ہیں

    تا اگر راز شما گوید نہ کس پروا کند
    زین سبب باشد شمارا محرم اسرار مست

    اگر راز کو ظاہر کر بھی دیا جائے تو پروا نہیں
    کیونکہ محرم راز بھی مست ہے

    غافل از دنیا و دین و جنت و نار است او
    در جہان ہر کس کہ میباشد قلندر وار مست

    وہ دنیا و دین و جنت و دوزخ سے بے پرواہ ہوتا ہے
    جو کوئی بھی اس جہان میں قلندر کہ طرح مست ہو

    حضرت بوعلی شاہ قلندر
    Hazrat Bu Ali Shah Qalandar

  • Heart Touching Poetry of Jalal ud din Rumi

    Heart Touching Poetry of Moulana Jalal ud din Rumi

    یک زمانہ صحبت با اولیا
    بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

    اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے
    سو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بہتر ہے

    صحبت صالح ترا صالح کند
    صحبت طالح ترا طالح کند

    نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے
    بُرے لوگوں کی صحبت بُرا بنا دیتی ہے

    اولیا را ہست قدرت از الہ
    تیر جستہ باز آرندش راہ

    اللہ کے ولیوں کو رب کی طرف سے طاقت حاصل ہے کہ وہ
    کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس کر دیتے ہیں یعنی تقدیر بدل دیتے ہیں

    گفت پیغمبرؐ با آواز بلند
    بر توکل زانوئے اُشتر بہ بند

    نبی پاک نے با آواز بلند تعلیم دی
    اللہ پر توکل رکھو ساتھ ہی اُونٹ کے گھٹنے بھی باندھو

    رمز الگاسبُ حبیب اللہ شنو
    از توکل در سبب کاہل مشو

    اشارہ سمجھو کہ حلال روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے
    توکل کے بھروسے کاہل نہ بن جاؤ

    چیست دنیا از خدا غافل بدن
    نے قماش و نقرہ و فرزندان و زن

    دنیا کیا ہے اللہ سے غافل ہونا
    نا کہ سازو سامان  چاندی ، بیوی اور بچے

    نام احمد ؐ نام جملہ انبیا ست
    چونکہ صد آمد نود ہم پیش ماست

    احمدؐ کے نام میں تمام انبیا کے نام موجود ہیں
    جیسا کہ سو آئے تو نوے بھی ساتھ ہی آ جاتے ہیں

    کاملے گر خاک گیرد زر شود
    ناقص ار زَر بُرد خاکستر شود

    کامل انسان خاک پکڑےتو سونا بن جائے
    ناقص اگر سونا لے لے تو خاک ہو جائے

    قافیہ اندیشم و دلدارِ من
    گویدم مندیش جز دیدارِ من

    میں قافیہ کی فکر کرتا ہوں اور میرا محبوب
    مجھ سے کہتا ہے کہ میرے دیداد کے سوا کچھ نہ سوچ

    چوں تو شیریں نیستی فرہاد باش
    چوں نہ لیلیٰ تو مجنوں گرد فاش

    جب تو شیریں نہیں ہے فرہاد بن جا
    جب تو لیلیٰ نہیں ہے توکھلا مجنوں بن جا
    یعنی معشوق نہیں ہے توپھر عاشق بن

    در بہاراں کے شود سَر سبز سنگ
    خاک شو تا گل بَروید رنگ رنگ

    موسم بہار میں پتھر سر سبز و شاداب کب ہوتا ہے
    خاک (مٹی) بن جا تاکہ رنگ برنگ کے پھول کھلیں

    ہمنشینی مُقبلاں چوں کمیاست
    چوں نظر شاں کیمائے خود کجاست

    بارگاہ حق کے مقبول بندوں کے ہم نشینی سونا ہے
    بلکہ ان لوگوں کے نظر کے مقابلے میں سونا خود کچھ نہیں

    ہیں کہ اسرافیل وقتند اولیا
    مُردہ را زیشاں حیات ست و نما

    خبردار اولیا وقت کے اسرافیل ہیں
    مردے ان سے حیات اور نشوونما پاتے ہیں

    مطلق آں آواز از شہ بود
    گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

    ان کی آواز حق کی آواز ہو تی ہے
    اگرچہ حلق اللہ کے بندے کا ہوتا ہے

    رو کہ بی یَسمَعُ وَ بیِ یَبصِرُ توئی
    سِر توئی چہ جائے صاحب سِر توئی

    جا کہ توہی رب کی سمع اور بصر والا ہے
    تو ہی راز ہے اور تو ہی صاحب راز ہے
    دو احادیث کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ جب نوافل سے قرب حاصل کرتا ہے تو میں
    اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے
    الا نسان سری و انا سرہ, رب فرماتا ہے انسان میرا راز ہے اور میں اُس کا راز ہوں

    بہر کیکے تو کلیمے را مسوز
    در صداع ہر مگس مگذارروز

    پسو سے تنگ آکر گدڑی نہ جلا دو
    مکھی سے تنگ آکر باہر نکلنا مت چھوڑو

    ہر کہ اُو بے مرشدے در راہ شد
    اُو زغولاں گمرہ و در چاہ شد

    جو کوئی بھی بغیر مرشد کے راستہ پر جلا
    وہ شیطانوں کی وجہ سے گمراہ اور ہلاگ ہوا

    صد ہزاراں نیزہ فرعون را
    در شکست آں موسیٰ با یک عصا

    فرعون کے لاکھوں نیزے
    حضرت موسیٰ نے ایک لاٹھی سے توڑ دیے

    صد ہزاراں طب جالنیوس بود
    پیش عیسیٰ و دمش افسوس بود

    جالنیوس کی لاکھوں طبیں(نسخے) تھیں
    حضرت عیسیٰ کے دم(پھونک) کے سامنے ہار گئیں

    صد ہزاراں دفتر اشعار بود
    پیش حرِف اُمیش آں عار بود

    لاکھوں اشعار کے دفتر(دیوان) تھے
    حضورؐ کے کلام کے سامنے شرمندہ ہو گئے

    ہمسری با انبیا برداشتند
    اولیا۶ را ہمچو خود پنداشتند

    انبیا کے ساھ برابری کا دعویٰ کر دیا
    اولیا کو اپنے جیسا سمجھ لیا

    گفتہ اینک ما بشر ایشاں بشر
    ما و ایشاں بستہ خوابیم و خور

    کہا کہ ہم بھی انسان ہیں اور وہ بھی انسان ہیں
    ہم اور وہ سونے اور کھانے کے پابند ہیں

    کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
    گرچہ باشد در نوشتن شیر شیرِ

    نیک لوگوں کے کام کو اپنے پر قیاس نہ کر
    اگرچہ لکھنے میں شییر(درندہ) اور شیرِ( دودھ) یکساں ہے

    مومنی اُو مومنی تو بیگماں
    درمیانِ ہر دو فرقے بیکراں

    رب بھی مومن ہے ، ،تو بھی مومن ہے
    لیکن ہر دو مومنوں کے درمیان بے حساب فرق ہے
    اس شعر سے بنی پاک کو اپنے جیسا(بشر) کہنے والوں کو نصیحت پکڑنی چاہیے
    مومن اللہ کا نام ہے ، حضور کا بھی نام ہے اور مسلمان بندے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے

    بادہ در جوشش گدائے جوشِ ماست
    چرخ در گردش فدائے ہوشِ ماست

    شراب جوش میں ہمارے جوش کی بھکاری ہے
    آسمان گردش میں ہمارے ہوش پر قربان ہے

    بادہ از ما مست شدنے ما ازو
    قالب از ما ہست شد نے ما ازو

    شراب ہماری وجہ سے مست ہوئی ہے نہ کہ ہم اُس سے
    جسم ہماری وجہ سے پیدا ہوا ہے نہ کہ ہم اُس کی وجہ سے

     

    Maulana Jalal uddin Rumi
    مولانا جلال الدین رومی

    To be Continued ……

  • Best Poetry of Allama Iqbal

    Best Poetry of Allama Iqbal

    علامہ اقبال ایک سچے عاشق رسول نہائت خوبی سے حضور کی شان بیان کر گئے ہیں

    در دل مسلم مقام مصطفیٰ است
    آبروئے ما زِ نام مصطفیٰ است

    مسلمانوں کے دلوں میں حضور کا مقام ہے
    ہم مسلمانوں کی عزت و آبرو حضورؐ کے نام کی بدولت ہے

    طور موجے از غبار خانہ اش
    کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش

    کوہ طور تو آپ کے مبارک گھر کی گرد کی لہر ہے
    کعبہ کے لئے آپ کا کاشانہ مبارک بیت الحرام کی مانند ہے

    کمتر از آنے ز اوقاتش، ابد
    کاسب افزائش از ذاتش ابد

    ابد جس کی انتہا نہیں آپؐ کے مبارک اوقات کے ایک پل سے بھی کم ہے
    ابد کی افزائش بھی آپ کی ذات گرامی کے طفیل ہے

    Asrar o Ramooz
    اسرار و رموز
    ——————————————————————
    مسلماں آں فقیر کج کلاہے
    رمید از سینہ او سوز آہے
    دلش نالد چرا نالد؟ نداند
    نگاہے یا رسول اللہ نگاہے

    مسلماں جو کہ اپنی فقیری میں بے پرواہ تھا
    اس کا سینہ سوز و گداز کی آہ سے خالی ہو گیا ہے
    اس کا دل روتا ہے مگر رونے کا سبب نہیں معلوم
    ایسے حال میں یارسول اللہ آپ ہی کچھ نظر کرم کریں

    Armaghan Hijaz
    ارمغان حجاز
    ——————————————————————-
    شبے پیش خدا بگریستم زار
    مسلماناں چرا زارند و خوارند
    ندا آمد نمی دانی کہ ایں قوم
    دلے دارند و محبوبے ندارند

    ایک رات خدا کے حضور بہت رویا
    کہ مسلمان ذلیل و خوار کیوں ہیں
    صدا آئی کہ تو نہیں جانتا کہ یہ قوم
    دل تو رکھتی ہے محبوب(حضورؐ) نہیں رکھتی

    Armaghan Hijaz
    ارمغان حجاز

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

  • Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom

    Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom
    Ba Tu me Goium Payam Pir e Room

    علامہ اقبال نے خوبصورت اشعار کی صورت میں حضرت مولانا روم کا مشہور واقعہ قلمبند کیا ہے
    جس کے بعد آپ نے درس و تدریس کو چھوڑ کر حضرت شمس تبریزی کی صحبت اختیار کر لی

    اے کہ باشی در پے کسب علوم
    با تو می گویم پیام پیر روم

    اےکہ تو علم حاصل کرنے میں مصروف ہے
    کیا تو نے پیر روم کا پیغام بھی سنا ہے

    “علم را بر تن زنی مارے بود
    علم را بر دل زنی یارے بود”

    مولانا روم کہتے ہیں کہ
    علم کو اگر بدن پر لگایا جائے تو یہ سانپ بن جاتا ہے
    لیکن علم کو اگر دل سے جوڑا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے

    آگہی از قصہ اخوند روم
    آں کہ داد اندر حلب درس علوم

    تو مولاناروم  کے قصے سے تو واقف ہے
    وہ جو روم کہ شہر حلب مین علوم کا درس دیا کرتے تھے

    پائے در زنجیر توجیہات عقل
    کشتیش طوفانی طلمات عقل

    اُن کے پاؤں عقل کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے
    اُن کی کشتی عقل کی تاریکیوں اور طوفانوں میں گھری ہوئی تھی

    موسی ے بیگانہ سینائے عشق
    بے خبر از عشق او از سودائے عشق

    وہ ایسے موسی تھے جو عشق کے طور سے نا واقف تھا
    عشق اور عشق کے طور اطوار سے بے خبر تھے

    از تشکک گفت و از اشراق گفت
    وز حکم صد گوہر تابندہ سفت

    وہ تشکک اور اشراق جیسے  فلسفہ کے موضوعات پر گفتگو فرماتے
    علوم کے موتی پروتے اور اس کے حصول پر زور دیتے تھے

    عقدہائے قول مشائیں کشود
    نور فکرش ہر خفی را وا نمود

    اُنہوں نے بہت سے پیچیدہ مسائل کی گھتیاں سلجھائیں
    اپنے نور فکر سے علم کا حصول ہر خاص و عام پر آسان کر دیا

    گرد و پیشش بود انبار کتب
    بر لب او شرح اسرار کتب

    اُن کے گرد ہر وقت کتابوں کا ڈھیر ہوتا
    ان کے ہونٹوں پر ہر وقت کتابوں کی تشریحات ہوتیں تھیں

    پیر تبریزی ز ارشاد کمال
    جست راہ مکتب مُلا جلال

    حضرت شمس تبریزی اپنے مرشد کے حکم پر
    مولاناجلال الدین رومی کے مدرسے پر آئے

    گفت “ایں غوغا و قیل و قال چیست
    ایں قیاس و وہم و استدلال چیست؟”

    کہا کہ یہ شورو شرابہ اور غل غپاڑہ کیا ہے؟
    یہ وہم و قیاس ،شک شبہ ،سمجھنا کیا ہے؟

    مولوی فرمود “ناداں لب بہ بند
    بر ملاقات خرد منداں مخند

    مولانا روم نے کہا کہ مولوی چپ ہو جا
    تو عقل مندوں کی باتوں کا مذاق نہ اُڑا

    پائے خویش از مکتبم بیروں گذار
    قیل و قال است ایں ترا باوے چہ کار؟

    تو اُلٹے پاؤں میرے مدرسے سے نکل جا
    میر ے قول و فعل سے تیرا کوئی لینا دینا نہیں

    قال ما از فہم تو بالا تر است
    شیشہ ادراک را روشن گر است”

    میری باتیں تیری عقل سے اونچی ہیں
    یہ عقل کے شیشے کو روشن کرتیں ہیں

    سوز شمس از گفتہ ملا فزود
    آتشے از جان تبریزی کشود

    شمس تبریزی کے سوز کی گرمی مولانا کی باتوں سے بڑھ گئی
    ان کی جان میں چھپی آگ ظاہر ہو گئ

    بر زمیں برق نگاہ او فتاد
    خاک از سوز دم او شعلہ زاد

    اُنہوں نے جلال سے بھری آنکھ زمیں پہ ڈالی
    ان کے پھونک سے مٹی شعلہ بن گئی

    آتش دل خرمن ادراک سوخت
    دفتر آں فلسفی را پاک سوخت

    دل کی آگ نے عقل و فہم و ادراک کا کھلیان جلا دیا
    اس فلسفی کا دفتر جل کر راکھ ہو گیا

    مولوی بیگانہ از اعجاز عشق
    ناشناس نغمہائے ساز عشق

    مولانا روم جو کہ اُس وقت تک عشق کی کرامتوں سے نا واقف تھے
    اور عشق کے نغموں اور رازوں سے بھی بے خبر تھے

    گفت: “ایں آتش چساں افروختی
    دفتر ارباب حکمت سوختی”

    بولے کہ تو نے یہ آگ کیسے جلا لی
    تو نے ارباب علم و حکمت کا نایاب خزانہ جلا ڈالہ

    گفت شیخ اے مسلم زنار دار
    ذوق و حال است ایں ترا باوے چہ کار

    شمس تبریز بولے کہ اے بظاہر مسلم مگر عملا انکاری
    یہ ذوق و شوق اور عشق کی گرمی کہ باعث ہے لیکن تیرا اس سے کوئی کام نہیں

    حال ما از فکر تو بالا تر است
    شعلہ ما کیمائے احمر است

    میرا حال تیری سمجھ سے بالا تر ہے
    میرا شعلہ پارس پتھر سونا ہے

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

    —————————————————————
    Molvi Hargiz Na Shud Maula E Rum
    Ta Ghulam e Shams Tabraizi Na Shud

    مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
    تا غلام شمس تبریزی نہ شد

    مولانا روم اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں فقط مولوی تھا
    مگر جب حضرت شمس تبریزی کا غلام ہوا تو روم کا سردار ہو گیا۔

    —————————————————————

    اس واقعہ کے بارے میں حکائت ہے کہ حضرت شمس تبریزی نے حضرت مولانا روم کی کتب پانی کے تالاب میں ڈال دی تھیں۔پھر جب مولانا روم برہم ہوئے تو آپ نے تالاب سے خشک کتابیں نکال دیں۔یہ کرامت دیکھ کہ مولانا روم آپ کے گرویدہ و مرید ہو گئے

  • Ae Shahid Qudsi Ke Kashd Band e Naqabat

    Ae Shahid Qudsi Ke Kashd Band e Naqabat

    اے شاہد قدسی کہ کشد بندِ نقابت
    وے مرغ بہشتی کہ دہد دانہ و آبت

    اے محبوب تیرے رخ سے نقاب کون کھولے گا
    اے بہشتی پرندے تجھے کون نورانی رزق پہنچاتا ہے

    خوابم بشداز دیدہ درین فکر جگر سوز
    کاغوشِ کہ شد منزل آسائش و خوابت

    میری نیند اس جگر سوز فکر سے اُڑگئ ہے
    کہ تیری منزل و خواب گاہ کہاں ہے اور تو کس کی آغوش میں ہے

    درویش نمی پرسی و ترسم کہ نباشد
    اندیشہ ء آمرزش و پروائے ثوابت

    تو درویشوں اور فقیروں کا حال و احوال نہیں پوچھتا شاید
    تجھے سزا و جزا کی پروا نہیں ہے

    راہِ دل عشّاق زد آں چشم خماری
    پیداست ازیں شیوہ کہ مستت شرابت

    تیری مست نگاہ نے عاشقوں کے دلوں میں گزر گاہ بناہ لی ہے
    لہزا وہ مست ہو کر راہ سے بھٹک گئے ہیں

    تیریکہ زدی بر دلم از غمزہ خطا رفت
    تا باز چہ اندیشہ کند رائے صوابت

    جو تیر تو نے میرے دل پر چلایا تھا وہ خطا ہو گئا ہے
    اب دیکھتے ہیں کہ تو اس بارے میں کیا فیصلہ کرتا ہے

    ہر نالہ و فریاد کہ کردم نشیندی
    پیداست نگارا کہ بلندست جنابت

    میں نے بہت آہ زاری و فریادیں کیں ہیں مگر تو نے نہ سنی
    میں جانتا ہوں کہ تیری بارگاہ بہت بلند اور بے نیاز ہے

    ای قصرِ دل افروز کہ منزل گہہ اُنسی
    یا رب مکناد آفتِ اَیّام خراَبت

    یہ تیرا محل دلوں کو محبتیں بانٹنیں والا مرکز ہے
    اللہ کرے کہ یہ زمانے کی آفات و بلیات سے محفوظ رہے

    دورست سرِ آب ازیں بادیہ ہشدار
    تا غولِ بیابان بفریبد بہ سرابت

    ہوشیاری سے کام لے پانی کا کنارہ اس صحرا میں بہت دور ہے
    کہیں سراب تجھے دھوکا نہ دے دے

    رفتی زکنار من دِل خستہ بناکام
    تا جائے کہ شد منزل و ماوائے کہ خوابت

    تو میرے دل کو مجھ سے چھین کر روانہ ہو گیا ہے
    ذرا یہ تو بتا کہ کونسی جگہ پر تیرا پڑاو ہوگا

    تا دررَہِ پیری بچہ آئین روی اے دِل
    بارے بغلط صرف شد اَیّام شبابت

    دیکھتے ہیں کہ بڑھاپے میں یہ دل کس راہ پہ چلتا ہے
    جوانی کے ایام تو اُلتے سیدھے کاموں میں صرف کر چکا ہوں

    حافظ نہ غلامیست کہ از خواجہ گریزد
    لطفے کن و باز آکہ خرابم ز عتابت

    حافظ وہ غلام ہی نہیں جو آقا سے بھاگ جائے
    اپنے حال پہ رحم کر اور واپس آ کہ تجھ پر مہربانیاں ہوں

    Hafiz Shirazi
    دیوان حافظ شیرازی

  • Qumi Mutfakrand Dar Mazhab o Deen

    Qumi Mutfakrand Dar Mazhab o Deen

    قومی متفکراند  در مذہب و دین
    قومی متحیراند در شک و یقین
    ناگاہ منادی ای بر آمد ز کمین
    کای بیخبراند راہ نہ آنست نہ این

    ایک قوم دین و مذہب میں غورو فکر کر رہی ہے
    ایک قوم شک و یقین کی وادی میں حیران پریشان ہے
    اچانک گھات سے ندا بلند آتی ہے
    اے نادانوں نہ یہ راہ سیدھی ہے نہ وہ

    عمر خیام
    Omar Khayyam

  • Mayam Ke Asal Shadi o Kaan e Ghameem

    Mayam Ke Asal Shadi o Kaan e Ghameem

    مائیم کہ اصل شادی و کان غمیم
    سرمایۂ دادیم و نہاد ستمیم
    پستیم و بلندیم و زیادیم و کمیم
    آئینہ زنگ خوردہ و جام جمیم

    ہم لوگ جو کہ خوشیوں کا گھر تھے غم کی کان ہو گئے
    زندگی کا سرمایہ دے دیا اور ستم کی بنیاد بن گئے
    پست بھی ہیں بلند بھی زیادہ بھی ہیں کم بھی
    ہمارے دل کے آئینہ کو زنگ لگ گیا ورنہ جمشید بادشاہ کے جام کی طرح ساری دنیا دیکھتے

    عمر خیام
    Omar Khayyam

  • Har Chand Ke Rang o Roop Zaibast Mera

    Har Chand Ke Rang o Roop Zaibast Mera

    ہر چند کہ رنگ و روی زیباست مرا
    چوں لالہ رُخ  و چو سرو بالا ست مرا
    معلوم نہ شد کہ در طربخانہ خاک
    نقاشِ ازل بہر چہ آرا ست مرا

    بے شک میرا حسن و جمال اور رنگ و روپ بہت خوب ہے
    لالہ کی طرح سرخ اور سرو کی مانند دراز قد ہوں
    لیکن سمجھ نہیں آتی کہ اس فانی دنیا مٹی کے گھر میں
    قدرت نے مجھے کس لئے اتنے حسن و جمال سے نوازا ہے

    عمر خیام
    Omar Khayyam

  • Khayyam Ke Khaima Haai Hikmat Me Dokht

    Khayyam Ke Khaima Haai Hikmat Me Dokht

    خیام کہ خیمہ ہای حکمت می دوخت
    در کوزہ غم فتادہ ناگاہ بسوخت
    مقراض اجل طناب عمرش بہ برید
    دلال قضا بہ رائگانش بفروخت

    خیام جو کہ فلسفہ و حکمت کے خیمے سیتا تھا
    غم کی بھٹی میں اچانک گر گیا اور جل گیا
    موت کی قنیچی نے جب اس کی عمر کی ڈور کاٹی
    قضا و قدر کے دلال نے جسد خاکی کو بے مول ہی فروخت کر دیا

    عمر خیام
    Omar Khayyam

azkalam.com © 2019 | Privacy Policy | Cookies | DMCA Policy