مندی ہاں کہ چنگی ہاں بھی ، صاحب تیری بندی ہاں
گہلا لوک جانے دیوانی ، رنگ صاحب دے رنگی ہاں
ساجن میرا اکھیں وچ وسدا ، گلیئیں پھری تشنگی ہاں
کہے حسین فقیر سائیں دا ، میں ور چنگے نال منگی ہاں
اے میرے مالک میں اچھا یا بُرا جیسا بھی ہوں تیرا بندہ ہوں
لوگ مجھے دیوانہ سمجھتے ہیں ،جب کہ میں تیرے رنگ میں رنگا ہوا ہوں
محبوب میری آنکھوں میں بستا ہے ،لیکن پیاسا گلیوں میں پھرتا ہوں
حسین رب کا فقیر کہتا ہےکہ محبوب حقیقی کہ ساتھ تعلق استوار ہو گیا ہے
نی سیّو ! اسیں نیناں دے آکھے لگے
جینہاں پاک نگاہاں ہوئیاں ، کہیں نہیں جاندے ٹھگے
کالے پٹ نہ چڑھے سفیدی ، کاگ نہ تھیندے بگے
شاہ حسین شہادت پائیں ، مرن جو متراں اگے
دوستو! ہم نگاہوں کا کہنا مانتے ہیں
جن کی طرف پاک نگاہیں اُٹھ جاتی ہیں وہ کہیں بھی دھوکہ نہیں کھاتے
جیسے سیاہ ریشم پر سفید رنگ نہیں چڑھتا اور جیسا کہ کوّے سفید نہیں ہوتے
شاہ حسین وہ شہید ہوتے ہیں جو محبوب کی خاطر قربان ہو جاتے ہیں
سوہنے ہم تو اس نالی(دنیا) سے پیاسے ہی نکل گئے
بھلا ہو مکھیوں نے گڑ(دنیا) کھایا مگر ہم نےمکھیوں کی بھنبھناہٹ سے چھٹکارا حاصل کر لیا
پرانے برتن کو کتوں نے چاٹا مگر ہم نے پانی سے کچھ نہیں دھویا
حسین رب کا فقیر کہتا ہے کہ جتنی مشکلات ہمارے راستے میں آئیں ہم سب کو چھلانگ لگا کر پار کرآئے
Dil Dardaan Keeti Poori Ni Dil Dardaan Keeti Poori
دل درداں کیتی پوری نی،دل درداں کیتی پوری
لکھ کروڑ جنہاں دے جڑیا،سو بھی جُھوری جُھوری
بَھٹھ پئی تیری چِٹی چادر ،، چَنگی فقیراں دی بُھوری
سَادھ سنگت دے اوہلے رندے ،بُدھ تینہاں دی سُوری
کہے حسین فقیر سائیں دا ،خلقت گئی اَدھوری
دل کی دردوں نے پورا کر دیا،دل کی دردوں نے مکمل کر دیا
جن کے پاس لاکھ ، کڑور جمع ہوتا ہے وہ پھر بھی ادھورے اور نا مکمل رہتے ہیں
تیر ی سفید چادر میلی ہو گئی مگرہماری بھوری چادر بے داغ ہے
جن کو نیک صحبت میسر ہو جائے ان کی عقل سلیم ہو جاتی ہے
حسین رب کا فقیر کہتا ہے کہ خلقت دنیا سے ادھوری جاتی ہے
ربّا میرے حال دا محرم تُوں
اندر توں ہیں باہر تُوں ہیں ، روم روم وچ تُوں
تُوں ہیں تانا ، تُوں ہیں بانا، سبھ کجھ میرا تُوں
کہے حسین فقیر نمانا، میں ناہیں سبھ تُوں
اے میرے رب صرف تو ہی میرے حال سے واقف ہے
میرے اندر باہر اور رگ رگ میں تو سمایا ہوا ہے
تو ہی میرا تانا بانااور سب کچھ ہے۔ یعنی دھاگوں (رگوں)کا جال جو میرے اندرطول اور عرض پھیلا ہوا ہے
عاجز فقیر حسین کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں سب کچھ تری ذات ہے
کدی سمجھ ندانا ، گھر کتھے اِی سمجھ ندانا
آپ کمینہ ،تیری عقل کمینی،کون کہے تُوں دانا
ایہنیں راہیں جاندے ڈھٹڑے، میر ملک سلطاناں
آپےمارے تے آپے جیوالے،عزرایئل بہانا
کہے حسین فقیر سائیں دا،بن مصلحت اُٹھ جانا
اے نادان کبھی تو ہوش کے ناخن لے ، اپنے اصلی گھر قبر کا سوچ
تو دنیا کے پیچھے لگ کر لالچی ہو گیا ہے تیر ی عقل دو کو چار کرنے میں لگی ہو ئی ہے لہذا تو عقل مند نہیں
یہیں کام کرتے کرتے سارے بادشاہ دنیا سے چلے گئے مگر حرص ختم نہ ہوئی
خود ہی پیدا کرتا ہے خود ہی مارتا ہے ،عزرائیل تو اک سبب ہے
حسین رب کا درویش کہتا ہے کہ دنیا سے بلا شبہ چلے جانا ہے
Main Bhi Jhook Ranjhan Di Jana Naal Mere Koi Challe
میں بھی جھوک رَانجھن دِی جانا،نال میرے کوئی چلے
پیراں پوندی،منتاں کردی ،جانا تاں پیا اکلے
نیں بھی ڈونگھی،تُلا پُرانا ،شینہاں تاں پتن ملے
جے کوئی خبر متراں دی لیاوے،ہتھ دے دینی آں چھلے
راتیں درد ، دینہاں در ماندی ، گھاؤ متراں دے اَلھے
رانجھن یار طبیب سنیندا، میں تن درد اولے
کہے حسین فقیر نمانا،سائیں سنہوڑے گھلے
میں بھی محبوب کی نگری میں جا کر بسنا چاہتی ہوں،میرے ساتھ کوئی چلے
پاؤں پکڑے ،منتیں کیں کہ کوئی ساتھی تیار ہو جائے مگر اکیلے ہی جانا پڑا
ندی گہری ہے ، کشتی پرانی ہے،خوفناک درندے بھی راستے میں ملتے ہیں
اگر کوئی مجھے محبوب کی خبر سنائے تو ہاتھ کی انگوٹھی دوں گی
رات کو جدائی کا درد اور دن کو بے بسی و مجبوری میں وقت کٹتا ہے،زخم بھی ہرے ہیں
سنا ہے کہ محبوب طبیب ہوتا ہے اور صرف وہ ہی ان دردوں کا علاج کر سکتا ہے
حسین رب کا فقیر کہتا ہے کہ رب تو بلاوے بھیجتا رہتا ہے۔