Author: azkalam

  • Asan So Bad Mast Qalandar houn

    Asan So Bad Mast Qalandar houn
    Kadin Masjid Houn Kadi Mandir Houn

    اساں سو بد مست قلندر ہوں
    کڈیں مسجد ہوں کڈیں مندر ہوں

    ہم وہ سرقسمت قلندر ہیں جو
    کبھی مسجد میں ہیں کبھی مندر میں ہیں

    کڈیں چور بنوں کڈیں جار بنوں
    کڈیں توبہ استغفار بنوں
    کڈیں زہد عبادت کار بنوں
    کڈیں فسق فجوریں اندر ہوں

    کبھی چور بنیں بدکار بنیں
    کبھی توبہ اسغفار کہیں
    کبھی زاہد عابد نیک بنیں
    کبھی فسق فجور کے اندر ہیں

    کِتھاں درد کِتھاں درمان بنوں
    کتھاں مصر کتھاں کنعان بنوں
    کتھاں کیچ بھنبھور دا شان بنوں
    کتھاں واسی شہر جلندر ہوں

    کہیں درد کہیں درمان بنیں
    کبھی مصر، کبھی کنعان بنیں
    کہیں کیچ،بھنبھور کا شان بنیں
    کبھی اندر شہر جا لندھر ہیں

    کتھاں صومعہ دیر کنشت کِتھاں
    کتھے دوزخ باغ بہشت کِتھاں
    کتھے عاصی نیک سرشت کِتھاں
    کِتھے گمرہ ہوں کِتھے رہبر ہوں

    کبھی خانقاہ کبھی بت خانہ
    کبھی گرجا میں کبھی مسجد میں
    کبھی دوزخ میں کبھی جنت میں
    کبھی عاصی ہیں کبھی زاہد ہیں
    کہیں گمراہ ہیں کہیں راہبر ہیں

    ہیوں او قلاش تے رند اساں
    پئی نودی ہے ہند سندھ اساں
    ہیوں بے شک عارف چند اساں
    کل راز رموز دے دفتر ہوں

    ہم تو وہ بے مایہ مست الست ہیں کہ
    کائنات ہمارے سامنے سرنگوں ہے
    ہم بلا شک و شبہ عارف کامل ہیں
    اور اسرار و رموز الہی کے ماہر ہیں

    ہن ناز نواز دے ٹول کڈیں
    ہے مونجھ منجھاری کول کڈیں
    رلے ڈھول کڈیں گیا رول کڈیں
    کڈیں بر در ہوں کڈیں در بر ہوں

    کبھی نازنیں کبھی ناز آفریں
    کبھی پرحزن وملال کبھی اندوہگیں
    کبھی قریب دوست کبھی بعید دوست
    کبھی در پر ہیں کبھی اندر ہیں

    ول واتوں سمجھ فرید الا
    کر محض نہ شعر جدید ولا
    ہے چالوں حال پدید بھلا
    تونے کیجو سارے ابتر ہوں

    فرید منہ سنبھال کر بات کر
    ایسے اشعار پھر نہ کہنا
    ہماری کیفیت تو ہمارے انداز سے ظاہر ہے
    کیا ہوا اگر بدحال ہیں

    Khawaja Ghulam Farid
    خواجہ غلام فرید

    ترجمہ تحقیق تصحیح
    خواجہ طاہر محمود کوریجہ

  • Heart Touching Poetry of Jalal ud din Rumi

    Heart Touching Poetry of Moulana Jalal ud din Rumi

    یک زمانہ صحبت با اولیا
    بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

    اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے
    سو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بہتر ہے

    صحبت صالح ترا صالح کند
    صحبت طالح ترا طالح کند

    نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے
    بُرے لوگوں کی صحبت بُرا بنا دیتی ہے

    اولیا را ہست قدرت از الہ
    تیر جستہ باز آرندش راہ

    اللہ کے ولیوں کو رب کی طرف سے طاقت حاصل ہے کہ وہ
    کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس کر دیتے ہیں یعنی تقدیر بدل دیتے ہیں

    گفت پیغمبرؐ با آواز بلند
    بر توکل زانوئے اُشتر بہ بند

    نبی پاک نے با آواز بلند تعلیم دی
    اللہ پر توکل رکھو ساتھ ہی اُونٹ کے گھٹنے بھی باندھو

    رمز الگاسبُ حبیب اللہ شنو
    از توکل در سبب کاہل مشو

    اشارہ سمجھو کہ حلال روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے
    توکل کے بھروسے کاہل نہ بن جاؤ

    چیست دنیا از خدا غافل بدن
    نے قماش و نقرہ و فرزندان و زن

    دنیا کیا ہے اللہ سے غافل ہونا
    نا کہ سازو سامان  چاندی ، بیوی اور بچے

    نام احمد ؐ نام جملہ انبیا ست
    چونکہ صد آمد نود ہم پیش ماست

    احمدؐ کے نام میں تمام انبیا کے نام موجود ہیں
    جیسا کہ سو آئے تو نوے بھی ساتھ ہی آ جاتے ہیں

    کاملے گر خاک گیرد زر شود
    ناقص ار زَر بُرد خاکستر شود

    کامل انسان خاک پکڑےتو سونا بن جائے
    ناقص اگر سونا لے لے تو خاک ہو جائے

    قافیہ اندیشم و دلدارِ من
    گویدم مندیش جز دیدارِ من

    میں قافیہ کی فکر کرتا ہوں اور میرا محبوب
    مجھ سے کہتا ہے کہ میرے دیداد کے سوا کچھ نہ سوچ

    چوں تو شیریں نیستی فرہاد باش
    چوں نہ لیلیٰ تو مجنوں گرد فاش

    جب تو شیریں نہیں ہے فرہاد بن جا
    جب تو لیلیٰ نہیں ہے توکھلا مجنوں بن جا
    یعنی معشوق نہیں ہے توپھر عاشق بن

    در بہاراں کے شود سَر سبز سنگ
    خاک شو تا گل بَروید رنگ رنگ

    موسم بہار میں پتھر سر سبز و شاداب کب ہوتا ہے
    خاک (مٹی) بن جا تاکہ رنگ برنگ کے پھول کھلیں

    ہمنشینی مُقبلاں چوں کمیاست
    چوں نظر شاں کیمائے خود کجاست

    بارگاہ حق کے مقبول بندوں کے ہم نشینی سونا ہے
    بلکہ ان لوگوں کے نظر کے مقابلے میں سونا خود کچھ نہیں

    ہیں کہ اسرافیل وقتند اولیا
    مُردہ را زیشاں حیات ست و نما

    خبردار اولیا وقت کے اسرافیل ہیں
    مردے ان سے حیات اور نشوونما پاتے ہیں

    مطلق آں آواز از شہ بود
    گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

    ان کی آواز حق کی آواز ہو تی ہے
    اگرچہ حلق اللہ کے بندے کا ہوتا ہے

    رو کہ بی یَسمَعُ وَ بیِ یَبصِرُ توئی
    سِر توئی چہ جائے صاحب سِر توئی

    جا کہ توہی رب کی سمع اور بصر والا ہے
    تو ہی راز ہے اور تو ہی صاحب راز ہے
    دو احادیث کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ جب نوافل سے قرب حاصل کرتا ہے تو میں
    اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے
    الا نسان سری و انا سرہ, رب فرماتا ہے انسان میرا راز ہے اور میں اُس کا راز ہوں

    بہر کیکے تو کلیمے را مسوز
    در صداع ہر مگس مگذارروز

    پسو سے تنگ آکر گدڑی نہ جلا دو
    مکھی سے تنگ آکر باہر نکلنا مت چھوڑو

    ہر کہ اُو بے مرشدے در راہ شد
    اُو زغولاں گمرہ و در چاہ شد

    جو کوئی بھی بغیر مرشد کے راستہ پر جلا
    وہ شیطانوں کی وجہ سے گمراہ اور ہلاگ ہوا

    صد ہزاراں نیزہ فرعون را
    در شکست آں موسیٰ با یک عصا

    فرعون کے لاکھوں نیزے
    حضرت موسیٰ نے ایک لاٹھی سے توڑ دیے

    صد ہزاراں طب جالنیوس بود
    پیش عیسیٰ و دمش افسوس بود

    جالنیوس کی لاکھوں طبیں(نسخے) تھیں
    حضرت عیسیٰ کے دم(پھونک) کے سامنے ہار گئیں

    صد ہزاراں دفتر اشعار بود
    پیش حرِف اُمیش آں عار بود

    لاکھوں اشعار کے دفتر(دیوان) تھے
    حضورؐ کے کلام کے سامنے شرمندہ ہو گئے

    ہمسری با انبیا برداشتند
    اولیا۶ را ہمچو خود پنداشتند

    انبیا کے ساھ برابری کا دعویٰ کر دیا
    اولیا کو اپنے جیسا سمجھ لیا

    گفتہ اینک ما بشر ایشاں بشر
    ما و ایشاں بستہ خوابیم و خور

    کہا کہ ہم بھی انسان ہیں اور وہ بھی انسان ہیں
    ہم اور وہ سونے اور کھانے کے پابند ہیں

    کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
    گرچہ باشد در نوشتن شیر شیرِ

    نیک لوگوں کے کام کو اپنے پر قیاس نہ کر
    اگرچہ لکھنے میں شییر(درندہ) اور شیرِ( دودھ) یکساں ہے

    مومنی اُو مومنی تو بیگماں
    درمیانِ ہر دو فرقے بیکراں

    رب بھی مومن ہے ، ،تو بھی مومن ہے
    لیکن ہر دو مومنوں کے درمیان بے حساب فرق ہے
    اس شعر سے بنی پاک کو اپنے جیسا(بشر) کہنے والوں کو نصیحت پکڑنی چاہیے
    مومن اللہ کا نام ہے ، حضور کا بھی نام ہے اور مسلمان بندے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے

    بادہ در جوشش گدائے جوشِ ماست
    چرخ در گردش فدائے ہوشِ ماست

    شراب جوش میں ہمارے جوش کی بھکاری ہے
    آسمان گردش میں ہمارے ہوش پر قربان ہے

    بادہ از ما مست شدنے ما ازو
    قالب از ما ہست شد نے ما ازو

    شراب ہماری وجہ سے مست ہوئی ہے نہ کہ ہم اُس سے
    جسم ہماری وجہ سے پیدا ہوا ہے نہ کہ ہم اُس کی وجہ سے

     

    Maulana Jalal uddin Rumi
    مولانا جلال الدین رومی

    To be Continued ……

  • Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom

    Ae Ke Bashi Dar Pe Kasb e Uloom
    Ba Tu me Goium Payam Pir e Room

    علامہ اقبال نے خوبصورت اشعار کی صورت میں حضرت مولانا روم کا مشہور واقعہ قلمبند کیا ہے
    جس کے بعد آپ نے درس و تدریس کو چھوڑ کر حضرت شمس تبریزی کی صحبت اختیار کر لی

    اے کہ باشی در پے کسب علوم
    با تو می گویم پیام پیر روم

    اےکہ تو علم حاصل کرنے میں مصروف ہے
    کیا تو نے پیر روم کا پیغام بھی سنا ہے

    “علم را بر تن زنی مارے بود
    علم را بر دل زنی یارے بود”

    مولانا روم کہتے ہیں کہ
    علم کو اگر بدن پر لگایا جائے تو یہ سانپ بن جاتا ہے
    لیکن علم کو اگر دل سے جوڑا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے

    آگہی از قصہ اخوند روم
    آں کہ داد اندر حلب درس علوم

    تو مولاناروم  کے قصے سے تو واقف ہے
    وہ جو روم کہ شہر حلب مین علوم کا درس دیا کرتے تھے

    پائے در زنجیر توجیہات عقل
    کشتیش طوفانی طلمات عقل

    اُن کے پاؤں عقل کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے
    اُن کی کشتی عقل کی تاریکیوں اور طوفانوں میں گھری ہوئی تھی

    موسی ے بیگانہ سینائے عشق
    بے خبر از عشق او از سودائے عشق

    وہ ایسے موسی تھے جو عشق کے طور سے نا واقف تھا
    عشق اور عشق کے طور اطوار سے بے خبر تھے

    از تشکک گفت و از اشراق گفت
    وز حکم صد گوہر تابندہ سفت

    وہ تشکک اور اشراق جیسے  فلسفہ کے موضوعات پر گفتگو فرماتے
    علوم کے موتی پروتے اور اس کے حصول پر زور دیتے تھے

    عقدہائے قول مشائیں کشود
    نور فکرش ہر خفی را وا نمود

    اُنہوں نے بہت سے پیچیدہ مسائل کی گھتیاں سلجھائیں
    اپنے نور فکر سے علم کا حصول ہر خاص و عام پر آسان کر دیا

    گرد و پیشش بود انبار کتب
    بر لب او شرح اسرار کتب

    اُن کے گرد ہر وقت کتابوں کا ڈھیر ہوتا
    ان کے ہونٹوں پر ہر وقت کتابوں کی تشریحات ہوتیں تھیں

    پیر تبریزی ز ارشاد کمال
    جست راہ مکتب مُلا جلال

    حضرت شمس تبریزی اپنے مرشد کے حکم پر
    مولاناجلال الدین رومی کے مدرسے پر آئے

    گفت “ایں غوغا و قیل و قال چیست
    ایں قیاس و وہم و استدلال چیست؟”

    کہا کہ یہ شورو شرابہ اور غل غپاڑہ کیا ہے؟
    یہ وہم و قیاس ،شک شبہ ،سمجھنا کیا ہے؟

    مولوی فرمود “ناداں لب بہ بند
    بر ملاقات خرد منداں مخند

    مولانا روم نے کہا کہ مولوی چپ ہو جا
    تو عقل مندوں کی باتوں کا مذاق نہ اُڑا

    پائے خویش از مکتبم بیروں گذار
    قیل و قال است ایں ترا باوے چہ کار؟

    تو اُلٹے پاؤں میرے مدرسے سے نکل جا
    میر ے قول و فعل سے تیرا کوئی لینا دینا نہیں

    قال ما از فہم تو بالا تر است
    شیشہ ادراک را روشن گر است”

    میری باتیں تیری عقل سے اونچی ہیں
    یہ عقل کے شیشے کو روشن کرتیں ہیں

    سوز شمس از گفتہ ملا فزود
    آتشے از جان تبریزی کشود

    شمس تبریزی کے سوز کی گرمی مولانا کی باتوں سے بڑھ گئی
    ان کی جان میں چھپی آگ ظاہر ہو گئ

    بر زمیں برق نگاہ او فتاد
    خاک از سوز دم او شعلہ زاد

    اُنہوں نے جلال سے بھری آنکھ زمیں پہ ڈالی
    ان کے پھونک سے مٹی شعلہ بن گئی

    آتش دل خرمن ادراک سوخت
    دفتر آں فلسفی را پاک سوخت

    دل کی آگ نے عقل و فہم و ادراک کا کھلیان جلا دیا
    اس فلسفی کا دفتر جل کر راکھ ہو گیا

    مولوی بیگانہ از اعجاز عشق
    ناشناس نغمہائے ساز عشق

    مولانا روم جو کہ اُس وقت تک عشق کی کرامتوں سے نا واقف تھے
    اور عشق کے نغموں اور رازوں سے بھی بے خبر تھے

    گفت: “ایں آتش چساں افروختی
    دفتر ارباب حکمت سوختی”

    بولے کہ تو نے یہ آگ کیسے جلا لی
    تو نے ارباب علم و حکمت کا نایاب خزانہ جلا ڈالہ

    گفت شیخ اے مسلم زنار دار
    ذوق و حال است ایں ترا باوے چہ کار

    شمس تبریز بولے کہ اے بظاہر مسلم مگر عملا انکاری
    یہ ذوق و شوق اور عشق کی گرمی کہ باعث ہے لیکن تیرا اس سے کوئی کام نہیں

    حال ما از فکر تو بالا تر است
    شعلہ ما کیمائے احمر است

    میرا حال تیری سمجھ سے بالا تر ہے
    میرا شعلہ پارس پتھر سونا ہے

    Allama Iqbal
    علامہ اقبال

    —————————————————————
    Molvi Hargiz Na Shud Maula E Rum
    Ta Ghulam e Shams Tabraizi Na Shud

    مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
    تا غلام شمس تبریزی نہ شد

    مولانا روم اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں فقط مولوی تھا
    مگر جب حضرت شمس تبریزی کا غلام ہوا تو روم کا سردار ہو گیا۔

    —————————————————————

    اس واقعہ کے بارے میں حکائت ہے کہ حضرت شمس تبریزی نے حضرت مولانا روم کی کتب پانی کے تالاب میں ڈال دی تھیں۔پھر جب مولانا روم برہم ہوئے تو آپ نے تالاب سے خشک کتابیں نکال دیں۔یہ کرامت دیکھ کہ مولانا روم آپ کے گرویدہ و مرید ہو گئے

  • Ae Shahid Qudsi Ke Kashd Band e Naqabat

    Ae Shahid Qudsi Ke Kashd Band e Naqabat

    اے شاہد قدسی کہ کشد بندِ نقابت
    وے مرغ بہشتی کہ دہد دانہ و آبت

    اے محبوب تیرے رخ سے نقاب کون کھولے گا
    اے بہشتی پرندے تجھے کون نورانی رزق پہنچاتا ہے

    خوابم بشداز دیدہ درین فکر جگر سوز
    کاغوشِ کہ شد منزل آسائش و خوابت

    میری نیند اس جگر سوز فکر سے اُڑگئ ہے
    کہ تیری منزل و خواب گاہ کہاں ہے اور تو کس کی آغوش میں ہے

    درویش نمی پرسی و ترسم کہ نباشد
    اندیشہ ء آمرزش و پروائے ثوابت

    تو درویشوں اور فقیروں کا حال و احوال نہیں پوچھتا شاید
    تجھے سزا و جزا کی پروا نہیں ہے

    راہِ دل عشّاق زد آں چشم خماری
    پیداست ازیں شیوہ کہ مستت شرابت

    تیری مست نگاہ نے عاشقوں کے دلوں میں گزر گاہ بناہ لی ہے
    لہزا وہ مست ہو کر راہ سے بھٹک گئے ہیں

    تیریکہ زدی بر دلم از غمزہ خطا رفت
    تا باز چہ اندیشہ کند رائے صوابت

    جو تیر تو نے میرے دل پر چلایا تھا وہ خطا ہو گئا ہے
    اب دیکھتے ہیں کہ تو اس بارے میں کیا فیصلہ کرتا ہے

    ہر نالہ و فریاد کہ کردم نشیندی
    پیداست نگارا کہ بلندست جنابت

    میں نے بہت آہ زاری و فریادیں کیں ہیں مگر تو نے نہ سنی
    میں جانتا ہوں کہ تیری بارگاہ بہت بلند اور بے نیاز ہے

    ای قصرِ دل افروز کہ منزل گہہ اُنسی
    یا رب مکناد آفتِ اَیّام خراَبت

    یہ تیرا محل دلوں کو محبتیں بانٹنیں والا مرکز ہے
    اللہ کرے کہ یہ زمانے کی آفات و بلیات سے محفوظ رہے

    دورست سرِ آب ازیں بادیہ ہشدار
    تا غولِ بیابان بفریبد بہ سرابت

    ہوشیاری سے کام لے پانی کا کنارہ اس صحرا میں بہت دور ہے
    کہیں سراب تجھے دھوکا نہ دے دے

    رفتی زکنار من دِل خستہ بناکام
    تا جائے کہ شد منزل و ماوائے کہ خوابت

    تو میرے دل کو مجھ سے چھین کر روانہ ہو گیا ہے
    ذرا یہ تو بتا کہ کونسی جگہ پر تیرا پڑاو ہوگا

    تا دررَہِ پیری بچہ آئین روی اے دِل
    بارے بغلط صرف شد اَیّام شبابت

    دیکھتے ہیں کہ بڑھاپے میں یہ دل کس راہ پہ چلتا ہے
    جوانی کے ایام تو اُلتے سیدھے کاموں میں صرف کر چکا ہوں

    حافظ نہ غلامیست کہ از خواجہ گریزد
    لطفے کن و باز آکہ خرابم ز عتابت

    حافظ وہ غلام ہی نہیں جو آقا سے بھاگ جائے
    اپنے حال پہ رحم کر اور واپس آ کہ تجھ پر مہربانیاں ہوں

    Hafiz Shirazi
    دیوان حافظ شیرازی

  • ilmon Bas Kareen o Yaar Eko Alaf tere Darkar

    ilmon Bas Kareen o Yaar Eko Alaf tere Darkar

    علموں بس کریں او یار
    اِکّو اَلف تیرے دَرکار

    علم نہ آوے وچ شمار
    اِکّو اَلف تیرے دَرکار
    جاندی عمر نہیں اَتبار
    علموں بس کریں او یار

    پڑھ پڑھ لکھ لکھ لاویں ڈھیر
    ڈھیر کتاباں چار چُفیر
    گردے چانن وچ اَنھیر
    پچھو راہ ؟ تے خبر نہ سار

    علموں بس کریں او یار

    پڑھ پڑھ شیخ مشایخ ہویا
    بھر بھر پیٹ نِیندر بھر سویا
    جاندی وار نین بھر رویا
    ڈبا وچ اُرار نہ پار

    علموں بس کریں او یار

    پڑھ پڑھ شیخ مشایخ کہاویں
    الٹے مسئلے گھروں بناویں
    بے علماں نوں لٹ لٹ کھاویں
    چھوٹھے سچے کریں اِقرار

    علموں بس کریں او یار

    پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں
    اُچیاں بانگاں چانگاں ماریں
    منبر تے چڑھ واعظ پکاریں
    کیتا تینوں علم خوار

    علموں بس کریں او یار

    پڑھ پڑھ مُلاں ہوئے قاضی
    اللہ علماں باجھوں راضی
    ہووے حرص دنوں دن تازی
    تینوں کیتا حرص خوار

    علموں بس کریں او یار

    پڑھ پڑھ مسئلے روز سناویں
    کھانا شک شبہے دا کھاویں
    دسے ہور تے ہور کماویں
    اندر کھوٹ ، باہر سچیار

    علموں بس کریں او یار

    پڑھ پڑھ علم نجوم وَچارے
    گندا راساں بُرج ستارے
    پڑھے عزیمتاں منتر چھاڑے
    اَبجد گنے تعویذ شمار

    علموں بس کریں او یار

    علموں پئے قضّئے ہور
    اَکھیں والے انھّے کور
    پھڑے سادھ تے چھڈے چور
    دوہیں جہانیں ہویا خوار

    علموں بس کریں او یار

    علموں پئےہزاراں پھستے
    تمبا چُک چُک منڈی جاویں
    دھیلا لَے کے چُھری چَلاویں
    نال قصَائیاں بوہتا پیار

    علموں بس کریں او یار

    بوہتا علم عزازیل نے پڑھیا
    جُھگا جھاہا اوس دا سَڑیا
    گل وچ طوق لعنت دا پَڑیا
    آخر گیا اوہ بازی ہار

    علموں بس کریں او یار

    جد میں سبق عشق دا پڑھیا
    دریا ویکھ وَحدت دا وڑیا
    گھمن گھیراں دے وچ اَڑیا
    شاہ عنائت لایا پار

    علموں بس کریں او یار

    بلّھا رافضی نہ ہے سنی
    عالم فاضل نہ عامل جُنّی
    اِکو پڑھیا علم لدّنی
    واحد اَلف میم دَرکار

    علموں بس کریں او یار

    Bulleh Shah
    بلھے شاہ

  • Qumi Mutfakrand Dar Mazhab o Deen

    Qumi Mutfakrand Dar Mazhab o Deen

    قومی متفکراند  در مذہب و دین
    قومی متحیراند در شک و یقین
    ناگاہ منادی ای بر آمد ز کمین
    کای بیخبراند راہ نہ آنست نہ این

    ایک قوم دین و مذہب میں غورو فکر کر رہی ہے
    ایک قوم شک و یقین کی وادی میں حیران پریشان ہے
    اچانک گھات سے ندا بلند آتی ہے
    اے نادانوں نہ یہ راہ سیدھی ہے نہ وہ

    عمر خیام
    Omar Khayyam

  • Arbab e Nazar Ke Liyea Har Sang Hai Toor

    Arbab e Nazar Ke Liyea Har Sang Hai Toor

    ارباب نظر کے لئے ہر سنگ ہے طُور
    ہر شے میں اُسی کا نور، ہے اس کا ظہور
    میخانہ و مسجد ہیں اُسی کے مظہر
    بخشے اللہ تجھ کو تھوڑا سا شعور

    Naseer ud Din Naseer
    نصیرالدین نصیر

  • Suno Do Hi LafZon Mein Muj Se Yeah Raaz

    نظم
    شریعت اور طریقت کیا ہے؟

    Suno Do Hi LafZon Mein Muj Se Yeah Raaz

    سنو دو ہی لفظوں میں مجھ سے یہ راز
    شریعت وضو ہے، طریقت نماز

    طریقت،شریعت کی تعمیل ہے
    طریقت عبادت کی تکمیل ہے

    شریعت بحکم و طریقت بدل
    کہ معنی سے کر دے تجھے متصل

    شریعت میں آثار راہ خدا
    طریقت میں رفتار راہ خدا

    طریقت،شریعت سے ہے صف بہ صف
    وہ ہے موج دریا یہ دریا میں کف

    شریعت سے ہے ظُلمت کفر دور
    طریقت میں فطرت کا ظاہر ہے نور

    شریعت کرے گی بصیرت کو صاف
    طریقت میں حسب مذاق انکشاف

    شریعت تو اک عام قانون ہے
    طریقت کا اک خاص مضمون ہے

    شریعت میں لازم اطاعت ہوئی
    طریقت میں شرط ارادت ہوئی

    شریعت تو ہے دیدۂ نور بیں
    طریقت بنی روح کی دور پیں

    شریعت ہے اک شمع محفل فروز
    طریقت ہے اک شعلہ وہم سوز

    شریعت ہے مِہرسپہر ہدیٰ
    طریقت کا رُخ سوئے حُبّ خدا

    شریعت ہے جان اور طریقت نشاط
    شریعت ہے منزل طریقت رباط

    شریعت میں ہے ناروجنت کا رنگ
    طریقت میں ہے وصل و فرقت کا رنگ

    شریعت کتابوں کی ہے متحمل
    طریقت میں ہے درس الواحِ دل

    شریعت طریقت میں تو کیوں الجھ
    وہ قرآن ہے اور یہ اس کی سمجھ

    سخن سنجیاں گو ہوں میری درست
    مگر قول سعدی نہایت ہے چست

    طریقت بجُزخدمتِ خلق نیست
    بہ تسبیح وسجادہ و دُلق نیست

    محال است سعدی کہ راہِ صفا
    تواں رفت جز بر پئےمصطفےٰ

    نہ ہو اہل اس کا تو کیا اس کی قدر
    خداہی کی مرضی سے ہے شرح صدر

    شریعت میں دین اور ایمان ہے
    طریقت میں تسکیں اور ایقان ہے

    عبادت سے عزت شریعت میں ہے
    عبادت کی لذت طریقت میں ہے

    شریعت میں تائید ضبطِ نفوس
    طریقت میں ذوقِ با خلوص

    طریقت قدم ہے شریعت ہے راہ
    شریعت زباں ہے طریقت نگاہ

    شریعت درِ محفل مصطفےٰ
    طریقت عروج دلِ مصطفےٰ

    شریعت میں ہے قیل و قال حبیب
    طریقت میں محوِ جمال حبیب

    شریعت میں ارشاد عہد الست
    طریقت میں ہے یاد عہد الست

    شریعت شکر ہے، طریقت زباں
    کہ معنی کی لذت چکھے تیری جاں

    اکبر الہٰ آبادی
    Akbar Allahabadi

  • Buriyan Buriyan Buriyan Way Aseen Buriyaan Way Loka

    Buriyan Buriyan Buriyan Way Aseen Buriyaan Way Loka

    بُریاں،بُریاں،بُریاں وے، اَسیں بُریاں وے لوکا
    بُریاں کول نہ بَہو وے
    تِیراں تے تلواراں کُولوں ،تِکھیاں برہوں دیاں چُھریاں وے لوکا
    لَد سجن پردیس سدھائے،اَسیں ودیاع کرکے مڑیاں وے لوکا
    چے تُوں تخت ہزارے دا سائیں، اسیں سیالاں دیاں کُڑیاں وے لوکا
    سانجھ پات کاہوں سَوں ناہیں،سَاجن کھوجن اَسِیں !ٹَریاں وے لوکا
    جنہاں سائیں دا ناؤں نہ لِتّا، اوڑک نوں اوہ جُھریاں وے لوکا
    اَساں اَوگن ہاریاں جیہے،کہے حسین فقیر سائیں دا
    صاحب سیوں اَسیں جُڑیاں وے لوکا

    ہم بُرے ہیں بُرے ہیں ،ہم بُرے ہیں اے لوگو
    بُروں کے پاس نہ بیٹھو اے لوگو
    تیروں اور تلواروں سے بڑھ کر تیز تر عشق و جدائی کی چھریاں ہیں
    محبوب ہمارا پردیس چلا گیا ہے،ہم لاچار الوداع کر کے لوٹ آئے ہیں
    اگر تو تخت ہزارے کا سائیں ہے تو ہم سیالوں کی باسی ہیں
    صبح شام کی ہم کو خبر نہیں ہم تو محبوب کی تلاش میں دن رات سرگرداں ہیں
    جنہوں نے مالک کا نام نہ لیا وہ بالاخر پچھتائیں گے
    ہم جیسے گنہگاروں کے لئے حسین رب کا فقیر کہتا ہے
    ہمارا تعلق تو مالک حقیقی سے چڑا ہوا ہے

    شاہ حسین
    Shah Hussain

  • Mayam Ke Asal Shadi o Kaan e Ghameem

    Mayam Ke Asal Shadi o Kaan e Ghameem

    مائیم کہ اصل شادی و کان غمیم
    سرمایۂ دادیم و نہاد ستمیم
    پستیم و بلندیم و زیادیم و کمیم
    آئینہ زنگ خوردہ و جام جمیم

    ہم لوگ جو کہ خوشیوں کا گھر تھے غم کی کان ہو گئے
    زندگی کا سرمایہ دے دیا اور ستم کی بنیاد بن گئے
    پست بھی ہیں بلند بھی زیادہ بھی ہیں کم بھی
    ہمارے دل کے آئینہ کو زنگ لگ گیا ورنہ جمشید بادشاہ کے جام کی طرح ساری دنیا دیکھتے

    عمر خیام
    Omar Khayyam

azkalam.com © 2019 | Privacy Policy | Cookies | DMCA Policy