Manzar Faza e Dahar Mein Sara Ali Ka Hai
منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں، نظارہ علی کا ہے
دنیائے آشتی کی پھبن ، مجتبی حسن
لختِ جگر نبی کا تو پیارا علی کا ہے
ہستی کی آب و تاب،حسین آسماں جناب
زھرا کا لال، راج دلارا علی کا ہے
مرحب دو نیم ہے سر مقتل پڑا ہوا
اُٹھنے کا اب نہیں کہ یہ مارا علی کا ہے
کُل کا جمال جزو کے چہرے سے ہے عیاں
گھوڑے پہ ہیں حسین، نظارا علی کا ہے
اے ارض پاک ! تجھ کو مبارک کہ تیرے پاس
چم نبی کا ، چاند ستارہ علی کا ہے
اہل ہوس کی لقمۂ تر پر رہی نظر
نانِ جویں پہ صرف گزارا علی کا ہے
تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باب میں
دیکھو مُعاملہ یہ ہمارا علی کا ہے
ہم فقر مست، چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارا علی کا ہے
آثار پڑھ کے مہدی دوراں کے یوں لگا
جیسے ظہور وہ بھی دوبارا علی کا ہے
دنیا میں اور کون ہے اپنا بجز علی
ہم بے کسوں کو ہے تو سہارا علی کا ہے
اصحابی کالنجوم کا ارشاد بھی بجا
سب سے مگر بلند ستارا علی کا ہے
تو کیا ہے اور کیا ہے تِرے علم کی بساط
تجھ پر کرم نصیر یہ سارا علی کا ہے