Tum jo chaho to mere dard ka darmaan ho jayay
تم جو چاہو تو مرے درد کا درماں ہو جائے
اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
آدمی کثرت انوار سے حیراں ہو جائے
تم جو چاہو تو مرے درد کا درماں ہو جائے
ورنہ مشکل ہے کہ مشکل مری آساں ہو جائے
او نمک پاش تجھے اپنی ملاحت کی قسم
بات تو جب ہے کہ ہر زخم نمکداں ہو جائے
دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے
کہ مجھے شکوہ کوتاہی داماں ہو جائے
اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں
خواب راحت بھی جسے خواب پریشاں ہو جائے
خواب میں بھی نظر آ جائیں جو آثار بہار
بڑھ کہ دامن سے ہم آغوش گریباں ہو جائے
سینہ شبلی و منصور تو پھونکا تو نے
اس طرف بھی کرم اے جنبش داماں ہو جائے
آخری سانس بنے زمزمہ ہو اپنا
ساز مضراب فنا تار رگ جاں ہو جائے
تو جو اسرار حقیقت کہیں ظاہر کر دے
ابھی بیدم رسن و دار کا ساماں ہو جائے